• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

پولیس کیمپ پر حملہ کرنے والے ڈاکوؤں پر 42 کروڑ روپے کا انعام

سکھر میں سندھ اور پنجاب پولیس افسران پر مشتمل اعلی سطحی اجلاس میں آئی جی سندھ غلام نبی میمن، آر پی او بہاولپور اور ایس ایس پی رحیم یار خان سمیت سکھر لاڑکانہ رینج کے پولیس افسران نے شرکت کی۔ اجلاس میں سندھ اور پنجاب کے افسران نے گھوٹکی رحیم یار خان کے سرحدی کچے کے علاقے میں ڈاکوئوں کے خلاف جلد مشترکہ گرینڈ ٹارگیٹڈ آپریشن کرنے کا فیصلہ کیا اور اس حوالے سے ڈاکوئوں کے خلاف آپریشن کے لیے موثر حکمت عملی مرتب کی گئی۔ 

گھوٹکی اور کشمور اضلاع کو پنجاب اور بلوچستان کے سرحدی علاقے لگتے ہیں، ڈاکوؤں کی ایک صوبے سے دوسرے صوبے فرار ہونے کے راستے بھی سیل کئے جائیں گے، ڈاکوئوں کے خلاف کچے کے جنگلات میں گھوٹکی کشمور اور رحیم یار خان سے بیک وقت آپریشن کیا جائے گا، آپریشن میں پولیس جوانوں کے ساتھ پولیس کے تربیت یافتہ کمانڈوز اور پولیس کے نشانہ باز بھی حصہ لیں گے، پولیس کی جانب سے یہ فیصلہ بھی کیا گیا ہے کہ آپریشن کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے اور ڈاکوئوں کے خاتمے تک تینوں اضلاع میں آپریشن جاری رہے گا۔ 

آئی جی سندھ کا کہنا تھا کہ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے یقین دہانی کرائی ہے کہ ڈاکوؤں کے خلاف انٹیلجنس کی بنیاد پر گرینڈ آپریشن کے لیے پولیس کو ہیلی کاپٹر سمیت تمام تربجٹ اور وسائل سندھ حکومت فراہم کرے گی۔ آئی جی سندھ غلام نبی میمن نے دورہ سکھر کے موقع پر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ پولیس افسران اور اہل کاروں کی شہادت کا درد جوان محسوس کررہے ہیں، میں مختلف اضلاع میں گیا ہوں پولیس کا مورال بلند ہے، خاص طور پر گھوٹکی میں پولیس جوانوں میں بہت زیادہ پیشہ ورانہ جذبہ دیکھا، ہم ڈاکوؤں کو بہتر طریقے سے گھوٹکی واقعے کا جواب دیں گے، پولیس کا نقصان ہوا ہے، جس کا حکومت اور محکمہ پولیس کو بہت احساس ہے اور ہمیں اپنے شہداء پر فخر ہے، لیکن اس سے قبل ہم ڈاکوؤں کو بہت نقصان پہنچا چکے ہیں اور پہنچائیں گے۔

دہشت کی علامت بنے بدنام ڈاکوؤں کا خاتمہ پولیس نے ہی کیا ہے۔ اس موقع پر ان کے ساتھ ڈی آئی جی لاڑکانہ مظہر نواز شیخ ایس ایس پی گھوٹکی تنویر حسین تنیو، ایس ایس پی سکھر سنگھار ملک سمیت دیگر افسران بھی موجود تھے۔ آئی جی سندھ غلام نبی میمن نے کہا کہ امن و امان کی بحالی کے لیے سندھ پولیس نے پہلے بھی محنت کی ہے اور اب بھی کررہے ہیں، کوشش ہوگی کہ ڈاکوؤں کے خلاف انٹیلیجنس کے بعد ٹارگیٹڈ آپریشن کیا جائے اور ڈاکوؤں کے ٹھکانوں کو تباہ کریں، گھوٹکی واقعے میں ملوث ڈاکوؤں کے سر کی قیمت مقرر کی جائے گی، جس کا جلد نوٹیفیکشن جاری کیا جائے گا۔

پولیس کے وسائل 10 سال قبل سے اب بہتر ہیں، بکتر بند گاڑیاں ہمارے پاس اب بہتر ہیں۔ سی ٹی ڈی اور اسپیشل برانچ بھی اپ گریڈ ہورہی ہیں، جو سندھ پولیس کی ہی ترقی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری اولین ترجیح گھوٹکی واقعے میں ملوث ڈاکوؤں کی شناخت اوران کی سرکوبی ہے، گھوٹکی واقعے کا مقدمہ درج کرلیا گیا ہے، جلد نتائج ملیں گے، ہم بھی بہتر سے بہتر ہتھیار خریدنا چاہتے ہیں، تاکہ کارکردگی مزید بہتر ہو، وزیر اعلیٰ سندھ نے یقین دہانی کروائی ہے کہ وہ جدید ہتھیاروں کی خریداری ممکن بنائیں گے۔سندھ کے کچھ سکھر لاڑکانہ رینج کے کچھ علاقوں میں صورت حال خراب ہے، جسے بہتر بنائیں گے۔

عوام کے تعاون سے سندھ پولیس بہتر سے بہتر نتائج دے گی۔ انہوں نے کہا کہ پولیس کا آپریشن کبھی نہیں رُکتا۔ پولیس ہمہ وقت تیار ہوتی ہے ، پولیس جب بھی جرائم پیشہ افراد کے خلاف آپریشن کرتی ہے، تو مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے، گھوٹکی ایسا ضلع ہے، جس سے دو صوبوں کی سرحدیں ملتی ہیں، ڈاکو اس کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور دوسرے صوبوں میں فرار ہو جاتے ہیں، جیسے ہی کچے کے راستے پکے ہوں گے، تو پولیس کو فائدہ ملے گا، حکومت نے کچے میں دریا پر پُل بنانے کا منصوبہ بھی بنایا ہے، ہم کچے کے راستے پکے بنائیں گے ، جس کے باعث پولیس کی بہتر رسائی ہو سکے، کچے میں جرائم پیشہ افراد کی جو نقل حرکت ہے، اس کو مکمل ختم کیا جائے گا، شہداء کو سُرخ سلام پیش کرتا ہوں، شہید زندہ ہوتے ہیں، سکھر اور لاڑکانہ رینج کا دورہ کیا ہے۔

پولیس افسران اور جوانوں کا مورال بلند یے خاص طور پر گھوٹکی کے جوانوں نے اپنے شہداء کا جو درد محسوس کیا وہ بیان نہیں کرسکتا، پولیس کی آپریشنل ضروریات کو پورا کیا جارہا ہے، ڈاکو کلچر کسی صورت برداشت نہیں کریں گے، گھوٹکی کشمور شکارپور اور سکھر اضلاع میں ڈاکوؤں کی مکمل سرکوبی کو یقینی بنایا جائے گا، جب کہ پولیس پر حملے کا مقدمہ رونتی تھانے پر حملے کا مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔ ڈاکوؤں نے پولیس کیمپ پر راکٹ لانچرز سے حملہ کیا تھا، جس میں 5 پولیس افسران اور اہل کاروں کی شہادت ہوئی تھی ، گزشتہ دنوں ڈاکوؤں کی جانب سے پولیس پر ہونےوالے حملے میں ڈی ایس پی، دو ایس ایچ او سمیت 5 اہل کاروں کی شہادت کا مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔ 

مقدمہ 70 معلوم اور 30 نامعلوم سمیت 100 ڈاکوؤں کے خلاف درج کیا گیا ہے، مقدمے میں قتل، اقدام قتل، پولیس پر حملے اور دہشت گردی کی دفعات سمیت دیگر سنگین دفعات شامل کی گئیں ہیں۔ مقدمہ رونتی تھانے میں ایس ایچ او تھانہ اوباڑو کی مدعیت میں درج کیا گیا ہے۔ وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے پولیس افسران کو احکامات دیتے ہوئے کہا تھا کہ تمام حملہ آوروں کو سلاخوں کے اندر دیکھنا چاہتا ہوں اور ان ڈاکوؤں کے سروں پر انعام مقرر کیا جائے۔ ایس ایس پی گھوٹکی تنویر حسین تنیو نے حملہ آور سمیت 85 ڈاکوؤں پر 42 کروڑ روپے انعام کی سفارش کی ہے۔ ہر ڈاکو پر زندہ یا مردہ سر پر پچاس لاکھ انعام رکھا جائے۔ 

ان میں متعدد ڈاکو ایسے بھی ہیں ، جن پر پہلے ہی حکومت سندھ کی جانب سے ایک سے دو کڑور روپے انعام مقرر ہے۔ گھوٹکی ضلع اس وقت ڈاکوؤں کے حوالے سے بہت زیادہ اہم ہے۔ سکھر، گھوٹکی، شکارپور اور کشمور چار اضلاع ہیں، جو سکھر اور لاڑکانہ ڈویژن اور رینج پر مشتمل ہیں۔ دو الگ الگ رینج کے ساتھ یہ چاروں اضلاع نہ صرف آپس میں جڑے ہوئے ہیں، بلکہ اس کی سرحدیں پنجاب اور بلوچستان سے بھی جڑی ہوئی ہیں اورجنگلات کی لاکھوں ایکٹراراضی پر ڈاکوؤں کا قبضہ ہے اور ان اضلاع میں ہمیشہ پولیس کے لیے آپریشن انتہائی مشکل رہا ہے۔ 

اس لیے دو سال قبل ایس ایس پی امجد احمد شیخ اور ایس ایس پی تنویر حسین تنیو نے ان اضلاع میں ٹارگیٹڈ آپریشن کیا، جس میں متعدد بدنام انعام یافتہ ڈاکوؤں سمیت درجنوں ڈاکو مارے گئے ۔ اس جنگلات اور جزیرے کی مشکل ترین صورت حال اور سیکڑوں ڈاکوؤں کی موجودگی کے باعث ماضی میں جو بھی آپریشن کیے گئے وہ مکمل طور پر کام یاب نہ ہوسکے، پولیس افسران کے مطابق اب جو حکمت عملی مرتب کی گئی ہے، اس کی پہلے بھی ضرورت تھی ، لیکن بین الصوبائی معاملات کے باعث اس پر عمل درآمد نہ ہوسکا، کیوں کہ متعدد مرتبہ اس چیز کی نشاندہی کی گئی کہ ضلع کشمور، شکارپور، سکھر، گھوٹکی، یہ کچے علاقوں خطرناک جنگلات اور دریائی جزیروں پر مشتمل ایک سرکل ہے، جس کی سرحدیں پنجاب اور بلوچستان سے ملی ہوئی ہیں اور اس سرکل میں سیکڑوں کی تعداد میں ڈاکو اپنی محفوظ پناہ گاہوں میں موجود ہیں، جب کہ ڈاکو پولیس آپریشن کے باعث سندھ سے بلوچستان اور پنجاب، جب کہ بلوچستان اور پنجاب سے سندھ کے جنگلات میں آجاتے ہیں۔ چند سال قبل ایک بین الصوبائی پریس کانفرنس کشمور میں ہوئی تھی، جس میں آر پی او بہاولپور آر پی او ڈیرہ غازی خان ڈی آئی جی سکھر ڈی آئی جی لاڑکانہ اور بلوچستان پولیس کے افسر نے شرکت کی تھی، اس مشترکہ کانفرنس کے اعلامیہ کے مطابق اس وقت کہا گیا تھا کہ سندھ پنجاب اور بلوچستان کی پولیس فورس کچے کے اس جنگل اور دریائی سرکل میں مشترکہ آپریشن کریں گی۔ 

اس حوالے سے تینوں صوبوں کے پولیس چیف اپنے اپنے وزیراعلیٰ کو رپورٹ دیں گے۔ وزیر اعلی کے بین الصوبائی رابطوں کے بعد مشترکہ آپریشن اس سرکل میں کیا جائے گا، لیکن اس کے بعد کسی بھی طرح کی کوئی پیش رفت سامنے نہیں آئی اور اس خطرناک سرکل میں آج بھی ڈاکوؤں کی بڑی تعداد موجود ہے۔ کچے کا سرکل اتنا مشکل ہے کہ اکثر مقامات پر پولیس کے راستے اونچے ہونے کے باعث جیسے ہی پولیس کی گاڑی کسی دریائی کچے کے بند پر چڑھتی ہے، نیچے موجود ڈاکو پولیس کو جدید ہتھیاروں سے نشانہ بناتے ہیں، بتایا جارہا ہے کہ صوبائی حکومت وزیر اعلیٰ سندھ اور آئی جی سندھ نے اس تمام تر صورت حال کو سامنے رکھ کر ڈاکوؤں کے خلاف انٹیلجنس کی بنیاد گرینڈ ٹارگیٹڈ آپریشن شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے آنے والے چند ماہ اس ٹارگیٹڈ انٹیلجنس بیس آپریشن کے لیے انتہائی اہم ہیں۔

جرم و سزا سے مزید
جرم و سزا سے مزید