وزیراعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو کی حکومت کے قیام کو ایک سال مکمل ہوگیا، 29 اکتوبر 2021 کو سابق وزیراعلیٰ جام کمال خان کے اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد پر بلوچستان اسمبلی میں بحث سے قبل ہی اپنے عہدے سے مستٰعفی ہونے پر میر عبدالقدوس بزنجو دوسری بار وزیراعلیٰ بلوچستان منتخب ہوئے تھے، ان کی اس کامیابی میں ان کی اپنی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کے ارکان، اتحادی جماعتوں سمیت اپوزیشن جماعتوں کا بھی کردار رہا تھا، سابق وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کو جہاں اپنے پورے دور میں ایک حقیقی اور ٹف ٹائم دینے والی اپوزیشن کا سامنا رہا وہاں موجودہ وزیراعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو کے لئے صورتحال مکمل طور پر اس کے برعکس ہے۔
اس وقت صوبے میں ان کے مقابلے میں ایک فرینڈلی اپوزیشن ہے حالانکہ اپوزیشن عددی اعتبار سے نہ صرف بڑی بلکہ بی این پی، جمعیت علمائے اسلام اور پشتونخوامیپ جیسی جماعتوں کے ارکان پر مشتمل ہے لیکن میر عبدالقدوس بزنجو کے لئے اپوزیشن کے حوالے سے کوئی بڑی مشکل ایک سال کے دوران دیکھنے میں نہیں آئی، ایک ڈیڑھ ماہ قبل جمعیت علمائے اسلام کی حکومت میں شامل ہونے یا نہ ہونے کے حوالے سے صوبے کا سیاسی ماحول گرم رہا اور یہ سلسلہ کئی دنوں تک جاری رہا اس سلسلے میں کوئٹہ اور اسلام آباد میں سیاسی رہنماوں کی متعدد ملاقاتیں بھی ہوئیں تاہم توقعات کے برعکس جمعیت علمائے اسلام صوبائی حکومت میں شامل نہ ہوئی بلکہ جمعیت کے صوبائی امیر وفاقی وزیر مولانا عبدالوسع نے صوبائی مجلس شوریٰ اور پارلیمانی پارٹی کے مشترکہ اجلاس کے بعد ایک پریس کانفرنس میں جہاں جمعیت کے صوبائی حکومت میں شامل نہ ہونے کا اعلان کیا تھا وہاں حقیقی اپوزیشن کا کردار بھی ادا کرنے کا عندیہ دیا تھا تاہم اب تک وزیراعلیٰ کو اس حوالے سے کسی مشکل کا سامنا نہیں، دوسری جانب ایک سوال کے دوران میر عبدالقدوس بزنجو صوبائی حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں اور اپوزیشن کو بخوبی ساتھ لے کر چلتے نظر آئے ہیں۔
بلوچستان کے سندھ سے ملحقہ ضلع لسبیلہ کو جب صوبائی کابینہ کے فیصلے کے تحت دو اضلاع میں تقسیم کیا گیا تو اس پر سابق وزیراعلیٰ جام کمال خان نے ناراضی کا اظہار کیا تھا کیونکہ ضلع کی تقسیم کو سیاسی حلقوں میں جام کمال خان کے پرانے ضلع لسبیلہ سے تعلق رکھنے والے صوبائی حکومت میں شامل سنیئر صوبائی وزیر سردار محمد صالح بھوتانی کی سیاسی کامیابی قرار دیا گیا تھا۔
تاہم اس مسئلے کو بھی وزیراعلیٰ بزنجو اس وقت احسن طریقے سے نمٹاتے نظر آئے جب انہوں نے کوئٹہ میں سابق وزیراعلیٰ جام کمال خان سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کے بعد ضلع لسبیلہ کی تقسیم کو جلدی میں کیا گیا ایک فیصلہ قرار دیا تھا جس کے بعد سیاسی حلقوں میں یہ باتیں زیر گردش رہیں کہ ان کی سابق وزیراعلیٰ سے ملاقات اور ضلع کی تقسیم سے متعلق بیان پر سینئر صوبائی وزیر سردار بھوتانی کا ردعمل سخت ہوسکتا ہے تاہم اس کے بعد نہ تو لسبیلہ کی تقسیم کے حوالے سے کوئی پیشرفت ہوئی اور نہ سردار بھوتانی کی ناراضی نظر آئی، وزیراعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو کے قریبی حلقے ریکوڈک معاہدہ کو ان کی ایک سال کے دوران سب سے بڑی کامیابی قرار دیتے ہیں۔
اس معاہدےسے قبل انہوں نے بلوچستان اسمبلی کے لئے ان کیمرا بریفنگ کا اہتمام بھی کیا تھا، دوسری جانب وزیراعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو کی حکومت کی ایک سال کی عوامی مسائل اور صوبے کی ترقی کے حوالے سے کارکردگی پر نظر ڈالی جائے تو موجودہ صوبائی حکومت بھی سابق صوبائی حکومتوں کی تسلسل نظر آتی ہے۔
ایک سال کے دوران صوبے کی ترقی اور عوام کے مسائل کے حل کے لئے ماضی سے ہٹ کر ایسے کوئی انقلابی اقدام نظر نہیں آتے جن کا صوبائی حکومت کریڈٹ لے، دوسری جانب رواں سال جولائی اور اگست کے مہینوں میں بلوچستان میں ہونے والی تباہ کن بارشوں اور سیلابی ریلوں سے صوبے کی تاریخ کی بدترین تباہی پھیلی، بہت بڑے پیمانے پر انسانی جانوں کے ضیاع کے ساتھ اربوں روپے کے نقصانات ہوئے، صوبے کا پہلے ہی سے کمزور انفراسٹرکچر تباہ ہوکر رہ گیا، روزگار کے سب سے بڑے زرعی شعبے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا، وزیراعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو کی جماعت اور ان کے بعض اتحادیوں کا موقف ہے کہ صوبائی حکومت رواں سال عوام کے مسائل کے حل اور صوبے کی ترقی کے لئے پبلک سیکٹر ڈوپلمنٹ پروگرام پر ماضی کے مقابلے میں تیز رفتاری سے کام کرنا چاہتی تھی لیکن تاریخ کے بدترین سیلابی ریلوں اور بارشوں کے باعث یہ کام کسی حد تک متاثر ہوا۔
وزیراعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو کے ایک سالہ دور حکومت میں بھی ماضی کی طرح زندگی کے مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والوں کی جانب سے اپنے مطالبات کے حق میں احتجاج کا سلسلہ جاری رہا، صوبے کے سیاسی حلقوں سمیت مختلف مکاتب فکر میں اس بات کو تقویت ملتی جارہی ہے کہ جس قدر سخت احتجاج ہوگا اتنی جلدی احتجاج کرنے والوں کے مطالبات پر عمل درآمد ہوگا، کوئٹہ کے ریڈ زون میں احتجاج سے روکے جانے پر احتجاج کرنے والوں کا رخ کوئٹہ پریس کلب کی جانب ہوتا ہے جہاں سال بھر میں شائد ہی کبھی ایسا وقت آتا ہو جب کوئی احتجاج نہ ہو یا کوئی احتجاجی کیمپ نہ لگایا جاتا ہو۔
میر عبدالقدوس بزنجو نے وزیراعلیٰ منتخب ہونے کے بعد اپنے خطاب میں جہاں اپنی ترجیحات کا اعلان کیا تھا وہاں انہوں نے واضح طور پر اعلان کیا تھا کہ جام کمال خان کی حکومت میں لوگوں کو اپنے حق کے لئے احتجاج کرنا پڑتا تھا ان کے دور میں ایسا کچھ نہ ہوگا لیکن ان کے دور حکومت میں ایک سال کے دوران بھی یہ دیکھا گیا کہ مختلف حلقوں کی جانب سے احتجاج کا نہ روکنے والا سلسلہ جاری رہا بلکہ بعض ایک مقام پر احتجاج کرنے والوں پر پولیس کی جانب سے لاٹھی چارج کرنے کے ساتھ گرفتاریاں بھی عمل میں لائی گئیں جس پر سیاسی حلقوں میں صوبائی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
اب جبکہ وزیراعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو کی حکومت کا ایک سال مکمل ہوگیا ہے ایسے میں آئندہ عام انتخابات کے انعقاد میں اب ایک سال سے بھی کم وقت باقی رہ گیا ہے اس دوران صوبائی حکومت کے سامنے آخری بجٹ پیش کیا جانا باقی ہے، دیکھنا ہے کہ وزیراعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو کی صوبائی حکومت باقی ماندہ مدت میں صوبے کی ترقی اور عوام کی خوشحالی کے لئے کیا اقدامات کرتی ہے اور وہ بھی ایک ایسے وقت میں جب صوبائی حکومت کو سیلاب سے بری طرح متاثرہ عوام اور صوبے کے تباہ حال انفراسڑکچر کی بحالی کا چیلنج بھی درپیش ہے۔