پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان پر وزیر آباد میں ہونے والے قاتلانہ حملے کے بعد لانگ مارچ کوفی الوقت ختم کرنے کا اعلان کیا گیا مگر بعد ازاں اچانک لانگ مارچ شروع کرنے کا اعلان کر دیاگیا اور 10سے 15دن میں اسلام آباد پہنچنے کا عندیہ بھی دے دیاگیا۔ صوبہ خیبر پختونخوا کی اگر بات کی جائے تو یہاں بھی لانگ مارچ کی تیاریاں پوری طرح عروج پر ہیں، تمام ارکانِ اسمبلی کو ٹارگٹ سونپا گیا تھا، لانگ مارچ میں شرکت کرنے والوں کی رجسٹریشن بھی جاری ہے، ارکان اسمبلی کی جانب سے فہرستیں پہلے ہی مرکزی قیادت کو فراہم کی جاچکی تھیں ، خیبر پختونخوا کے قافلوں کی روانگی کیلئے پہلے4 نومبر کی تاریخ رکھی گئی تھی تاہم اسلام آباد پہنچنے میں تاخیر کے امکانات کے پیش نظر خیبر پختونخوا کے قافلے عمران خان کے اعلان کے بعد اسلام آباد میں ہوں گے۔
تاہم لانگ مارچ نے یقینی طور پر حکومت پر بھی کافی دباؤ بڑھائے رکھا اور تحریک انصاف نے ثابت کردیا کہ وہ اعلان کے مطابق بھر پور طریقہ سے میدان میں نکلنے کی صلاحیت رکھتی ہے، دوسری طرف خیبر پختونخوا میں ضمنی انتخابات میں شکست کے بعد عوامی نیشنل پارٹی نے صوبہ میں خود کو فعال اور متحرک کرنے کیلئے مہم کا آغاز کردیا ہے، اس مقصد کیلئے اے این پی نے 4نومبر کو صوابی میں امن مارچ کے نام سے ایک کامیاب شو کا انعقاد کیااور بڑی تعداد میں لوگوں کو اکٹھا کرنے میں کامیابی حاصل کی ،جہاں تک اے این پی کا تعلق ہے تو یہ صوبے کی بڑی سیاسی قوتوں میں شمار ہوتی رہی ہے۔
تاہم 2013کے انتخابات کے بعد سے بتدریج اس کی سیاسی پوزیشن زوال پذیری کی طرف گامزن دکھائی دیتی ہے، 2013 اور2018کے انتخابات میں اے این پی کوئی خاص کارکردگی دکھانے میں ناکام رہی، ساتھ ہی اندرونی اختلافات کی وجہ سے پارٹی کی سرگرمیاں خاصی متاثر ہوچکی ہیں، اس وقت بھی اہم سیاسی معاملات پر پارٹی میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے جس میں سے اہم معاملہ پی ڈی ایم حکومت میں شمولیت کا ہے ، اے این پی کو کئی مرتبہ حکومت میں شامل ہونے کی دعوت مل چکی ہے، وزیر اعظم شہباز شریف اس وقت بھی عوامی نیشنل پارٹی کو وفاقی کابینہ میں نمائندگی دینے کیلئے تیار ہیں، اسی طرح صوبہ کی گورنر شپ بھی اے این پی کو دینے کی پیشکش کی جاچکی ہے لیکن ان دونوں معاملات کے حوالے سے اے این پی کی صفوں میں یکسوئی کی کمی کی وجہ سے پیش رفت نہیں ہوسکی۔
اگر گورنرشپ کی بات کی جائے تو یہ عہدہ گزشتہ سات ماہ سے خالی ہے، سابق گورنر شاہ فرمان نے استعفیٰ دینے میں کچھ زیادہ ہی جلد بازی کا مظاہرہ کیا تھا جس پر پارٹی کے بعض رہنما ابھی تک اندرون خانہ ان کی کلاس لیتےنظر آتے ہیں، پی ڈی ایم کی جماعتوں میں اس معاملہ پر سات ماہ کے بعد بھی اتفاق رائے نہیں ہوسکا ہے، ابتدا میں یہ عہدہ اے این پی کو دیا جارہا تھا جس کیلئے میاں افتخار حسین کا نام بھی سامنے آچکا تھا لیکن پارٹی کے اندرونی مسائل کے باعث میاں افتخار حسین گورنر بنتے بنتے رہ گئے جس کے بعد جے یو آئی نے اس عہدے کے حصول کیلئے لابنگ تیز کردی اور چند ہفتے قبل یہ خبریں سامنے آئیں کہ پی ڈی ایم کی جماعتوں نے یہ عہدہ جے یو آئی کو دینے پر اتفاق کرلیا ہے اور مولانا فضل الرحمان کے سمدھی حاجی غلام علی کا نام میڈیا کی زینت بنا مگر ایک ماہ بعد بھی گورنر کی تقرری کا معاملہ رکا ہوا ہے، اس سلسلے میں یہ بھی کہا جارہا ہے کہ آصف علی زرداری ایک مرتبہ پھر یہ عہدہ اے این پی کو دینے کی خواہش کا اظہار کررہے ہیں اور ان کی کوشش ہے کہ اے این پی کو راضی کرکے یہ عہدہ ان کے حوالے کیا جائے اور اسی لئے نئے گورنر کی تقرری کا معاملہ لٹکا ہوا ہے، یہ کہنا بالکل درست ہوگا کہ پی ڈی ایم کی جماعتیں گزشتہ سات ماہ سے اس ایک نقطہ پر یکسوئی پیدا کرنے میں ناکام ہیں تو آگے چل کر وہ تحریک انصاف کو انتخابی میدان میں ٹف ٹائم ہرگز نہیں دے سکیں گی جس کا مظاہرہ ویسے بھی16اکتوبر کے ضمنی انتخابات کے موقع پر سامنے آچکا ہے۔
حاجی غلام بلور اور ایمل ولی خان دبے الفاظ میں اتحادی جماعتوں کی عدم دلچسپی کا گلہ کرچکے ہیں جبکہ کچھ اسی طرح کا گلہ جے یو آئی کی جانب سے مردان ضمنی انتخابات کے حوالے سے سامنے آچکا ہے، گویا پی ڈی ایم اتحادی جماعتوں کے مابین بد اعتمادی پوری طرح سے موجود ہے اور لگتا ہے کہ یہ جماعتیں صرف اور صرف تحریک انصاف کی مخالفت کے یک نکاتی ایجنڈے پر ہی اکٹھی رہ سکتی ہیں اگر ان کی باہمی بداعتمادی اسی طرح برقرار رہتی ہے تو بظاہر اگلے عام انتخابات میں یہی جماعتیں الگ الگ انتخابی نشانات کے ساتھ میدان میں اتریں گی جس کا تمام تر فائدہ پی ٹی آئی کو ملے گا کیونکہ ضمنی انتخابات نے یہ بات واضح کردی ہے کہ جب تک اپوزیشن جماعتیں ایک مضبوط اور موثر انتخابی اتحاد نہیں بناتیں پی ٹی آئی کو خیبر پختونخوا میں شکست دینا ان کے بس سے باہر ہی ہوگا۔
ادھر مرکز میں پی ڈی ایم کی حکومت کے قیام کیساتھ ہی خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف حکومت کی مشکلات میں اضافہ ہوچکا ہے، صوبائی حکومت کا کہنا ہے کہ نہ صرف پن بجلی منافع کے بقایاجات روکے گئے ہیں بلکہ قبائلی اضلاع کے فنڈز پر بھی بہت بڑا کٹ لگایا جاچکا ہے، صوبائی حکومت کا یہ بھی کہنا ہے کہ قبائلی اضلاع کیلئے صوبائی بجٹ میں سے رقم مختص کرنے کیلئے بندوبستی اضلاع کے کئی منصوبے پسِ پشت ڈالے جانے کا خطرہ ہے، یہی وجہ ہے کہ اب صوبائی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ اگر وفاقی حکومت نے بروقت صوبہ کے حصے کے بقایاجات کی ادائیگی کو یقینی نہ بنایا تو اس کے خلاف اسلام آباد میں احتجاج کے ساتھ ساتھ عدالت سے بھی رجوع کیا جائیگا ،اس معاملہ پر وزیر اعلیٰ محمود خان کچھ عرصہ قبل صوبے کی پارلیمانی اپوزیشن کو بھی اعتماد میں لے چکے ہیں اور اپوزیشن جماعتوں نے بھی صوبائی حقوق کے معاملہ پر حکومت کو مکمل اعتماد کی یقین دہائی کرائی ہے یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر صوبائی حکومت یہاں کی اپوزیشن جماعتوں، جن میں جے یو آئی، مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی اہم ہیں، کوان بورڈ لیتی ہے کیونکہ یہی جماعتیں مرکز میں برسرِاقتدا ر ہیں لہٰذا مرکزی حکومت پر دباؤ بڑھایا جاسکتا ہے۔ اگر ایسا نہ کیا جاسکا تو آنے والے دنوں میں صوبائی حکومت کے دیوالیہ ہونے کے خدشات میں اضافہ ہوسکتا ہے۔