وطن عزیز کی سیاسی فضا میں یہ محسوس کیا جا رہا ہے کہ ملک کی سیاسی قیادت ذہنی افلاس اور ذاتی مفادات کی اسیر بنی ہوئی ہے اور ریاستی اداروں کے مقام اور مرتبے کو ’’متنازعہ‘‘ بنانے کی روش نے ملکی سالمیت اور استحکام کے حوالہ سے کئی سوال کھڑے کر رکھے ہیں۔ واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ ایک طرف ہمارا ملک سخت ترین معاشی بحران کا شکار ہے اور دوسری طرف دہشت گردی کے خطرات منڈلاتے دکھائی دے رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان پر لانگ مارچ کے دوران ہونے والے قاتلانہ حملے نے نہ صرف سیاسی محاذ آرائی میں اضافہ کر دیا ہے بلکہ محب وطن حلقوں کو گہری تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔
اس واقعہ کے بعد عمران خان کی طرف سے جو مطالبات سامنے آئے ہیں ان سے واضح ہو رہا ہے کہ سیاسی تقسیم کا سلسلہ دن بدن بڑھتا جا رہا ہے اور نفرتوں کی خلیج بھی وسیع ہوتی جا رہی ہے سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ریاستی اور سیکورٹی اداروں میں تقسیم اور تفریق پیدا کرنے کی کوشش کرنا یا انہیں عوام میں ’’متنازعہ‘‘ بنا کر پیش کرنا کسی طور پر بھی حب الوطنی کی فضاکو جنم نہیں دیتا۔
ہماری سیاسی تاریخ کا ہمیشہ سے یہ المیہ رہا ہے کہ پاکستان کی سیاست میں بغیر کسی ثبوت کے دوسروں پر الزامات عائد کرنے کا کلچر بہت گہرا ہے۔ کبھی سیاسی رہنما اپنے مخالف سیاست دانوں پر تقاریر کے دوران مختلف قسم کے الزامات عائد کرتے تھے پھر بتدریج یہ معاملہ بڑھتے بڑھتے اپنی حدود سے نکلتا گیا اور پھر ’’نام نہاد ‘‘ ماہرین احتساب اور قانون نے سیاسی کشیدگی کو اس حد تک بڑھا دیا کہ سیاسی ماحول کی تلخیوں میں ناقابل برداشت رویے کی صورتحال پیدا ہوگئی۔ حالیہ چند برسوں میں تو یہ بات شدت سے محسوس کی جا رہی ہے کہ سیاسی محاذ آرائی کا منظر گالم گلوچ میں تبدیل ہو گیا ہے۔ اس کے علاوہ اضطراب انگیز پہلو یہ سامنے آیا ہے کہ ملک کے اہم اور حساس ترین اداروں کو بھی لپیٹ میں لینے کا آغاز کر دیا گیا ہے۔
سانحہ وزیر آباد کے بعد یہ معاملہ انتہائی سنگین صورتحال کا شکار ہے۔ وفاقی دارالحکومت کے سیاسی اور سفارتی حلقوں میں خارجہ پالیسی کو بہتر بنانے کے معاملہ میں کئی خبریں گردش کر رہی ہیں۔ وزیراعظم میاں شہباز شریف کی طرف سے سعودی عرب اور چین کے حالیہ دوروں نے ان حالات کو یکسر تبدیل کر دیا ہے جو سابق حکومت کے بچگانہ اور ناتجربہ کاری کے طرز عمل سے بگڑے ہوئے تھے۔
وزیراعظم خارجہ امور کے معاملات میں نوجوان وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کو بھی قدم قدم پر مشاورت میں شریک رکھتے ہیں۔ ایک وزارت خارجہ کے اعلیٰ افسر کا کہنا ہے کہ نوجوان وزیر خارجہ کے علاوہ تجربہ کار خاتون وزیر مملکت بھی بڑے احسن انداز میں اپنے جوہر دکھا رہی ہیں اور کئی معاملات میں پیشہ ورانہ مہارت سے کام لے رہی ہیں۔ سیاسی حلقوں میں تحریک انصاف کے ایک سابق راہنما فیصل واوڈا کے لانگ مارچ کے قبل کی ہنگامی پریس کانفرنس ابھی تک بحث کا موضوع بنی ہوئی ہے۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین اور دیگر اعلیٰ قیادت نے اگرچہ انہیں پارٹی سے نکال دیا ہے لیکن ان کی طرف سے اٹھائے جانے والے کئی سوالات ابھی تک تشنگی کا سامان لئے کھڑے ہیں۔
جادو کی چھڑی رکھنے والے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے لندن سے واپسی پر کچھ کرشمات کا تحفہ دیا لیکن بعدازاں ابھی تک آئی ایم ایف کی موشگافیوں اور ڈالر کی سیاست میں گھرے ہوئے محسوس ہو رہے ہیں۔ ماہرین معیشت کا کہنا ہے کہ سعودی عرب اور چین کی خصوصی معاونت اور عالمی اداروں کی مالیاتی پالیسیوں کی مہارت کے تجربے سے وفاقی وزیر خزانہ بڑھتی ہوئی مہنگائی کے گراف کو کم کرنے کے معاملہ میں خاصے پرامید دکھائی دے رہے ہیں۔ صوبائی دارالحکومت بھی سانحہ وزیر آباد کے بعد سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنا ہوا ہے۔
وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس بات کا واشگاف اعلان کیا ہے کہ عمران خان پر ہونے والے قاتلانہ حملے کی تحقیقات کے سلسلہ میں چیف جسٹس پاکستان فل کورٹ کمیشن بنائیں اور مذکورہ کمیشن ہی کینیا میں قتل ہونے والے صحافی ارشد شریف کے اندوہناک واقعہ کی بھی حقائق پر مبنی رپورٹ مرتب کرکے ملزمان کی نشاندہی کرے۔ وزیر اعظم نے عمران خان کی طرف سے عسکری اداروں پر لگائے جانے والے الزامات کے سلسلہ میں بھی قانونی کارروائی کے لئے ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی قائم کر دی ہے۔
یہ کمیٹی عسکری اداروں کی طرف سے کئے گئے مطالبے کی بنیاد پر بنائی گئی ہے۔ صوبائی دارالحکومت میں جب سے تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ق) کی اتحادی حکومت وجود میں آئی ہے اس دن سے اعلیٰ بیوروکریسی کے حلقوں میں اضطراب اور بے چینی کی فضا محسوس کی جا رہی ہے۔ چیف سیکرٹری پنجاب کے عہدے سے طویل رخصت پر جانے والے علی کامران افضل ابھی تک وفاقی حکومت میں کسی اور عہدے کے منتظر ہیں جبکہ سانحہ وزیر آباد کے بعد پی ٹی آئی کے چیئرمین کے ایف آئی آر میں اعلیٰ حکومتی شخصیات کے علاوہ حساس ادارے کے اعلیٰ افسر کی نامزدگی کے معاملہ نے بھی انتظامیہ کے کلیدی عہدیداروں کو تذبذب میں مبتلا کررکھا ہے۔
پی ٹی آئی کے نائب صدر کے عہدیدار نے جب آئی جی پنجاب کو ایف آئی آر کے اندراج کے معاملہ میں موردالزام ٹھہرایا تو انہوں نے بھی وفاقی حکومت کو ایک خط کے ذریعے صوبے سے اپنی خدمات لینے کے بارے میں آگاہ کر دیا۔ انہوں نے صوبے کے وزیر اعلیٰ کو بھی اس صورتحال سے مطلع کر دیا ہے۔ دوسری طرف وفاق نے صوبائی حکومت کے من پسند پولیس افسر کو بھی گورنر ہائوس کی ناقص سیکورٹی کے معاملہ پر معطل کرنے کے احکامات جاری کر دیئے۔
وفاق اور صوبے میں جاری اس ’’کشمکش‘‘ کے ماحول نے انتظامی اور پولیس افسران کو ایک ’’مخمصے‘‘ میں مبتلا کر رکھا ہے۔ دوسری طرف پی ٹی آئی کے چیئرمین شوکت خاتم ہسپتال سے لانگ مارچ کو پھر سے رواں دواں رکھنے کا واشگاف اعلان کر چکے ہیں۔ اب دیکھتے ہیں کہ وفاقی حکومت کے علاوہ ریاستی ادارے اس معاملہ میں کیا لائحہ عمل مرتب کرتے ہیں ؟