اسلام آباد(این این آئی)سپریم کورٹ نے ریکوڈک معاہدے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت کرتے ہوئے کہا ہے کہ قانون میں دی گئی وفاقی نوعیت کی شقوں کا وفاق اور صوبائی شقوں کا جائزہ صوبائی حکومت لے۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ کیوں نہ 1948 کے معدنیات ایکٹ کو اس کی اصل حالت میں رہنے دیا جائے؟۔ پیر کو چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی پر مشتمل سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بنچ نے ریکوڈک معاہدے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت کی۔ ایڈووکیٹ سلمان اکرم راجا نے دلائل دئیے کہ معدنیات ایکٹ 1947 میں مجوزہ ترمیم آئین میں دی گئی اسکیم کے منافی ہے۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے استفسار کیا کہ قانون میں دی گئی وفاقی نوعیت کی شقیں وفاق اور صوبائی شقوں کا جائزہ صوبائی حکومت لے۔ ایڈووکیٹ سلمان اکرم راجا نے کہا کہ بلوچستان اسمبلی کی ترامیم میں وقتی قانون سازی ہوسکتی ہے کیونکہ گیس، تیل اور جوہری توانائی کے علاوہ باقی معدنیات کیلئے قانون سازی صوبوں کو کرنی چاہئے۔ سلمان اکرم راجا نے دلائل دیئے کہ عارضی طور پر کسی قانون کو اپنایا جاسکتا ہے۔ عدالتی معاون زاہد ابراہیم نے کہا کہ ریکوڈک منصوبہ پاکستان میں غیرملکی سرمایہ کاری کیلئے دروازے کھولے گا اور منصوبے سے ماضی اور موجودہ حکومتوں کی سیاسی ہم آہنگی کو فروغ ملے گا۔