• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

حکومت مہنگائی کا جن کب بوتل میں بند کرے گی ؟

فوج میں اعلیٰ سطح پر تقرریوں سے کافی حد تک استحکام آگیا جبکہ سیاسی عدم استحکام کے خاتمے کیلئے سیاست دانوں میں بھی بات چیت کا آغاز ہو گیا، تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے بھی مذاکرات کیلئے مشروط آمادگی کا اظہار کیا ہے حکومت کی طرف سے وزیر خزانہ اور میاں نواز شریف کے عزیز اور قابل اعتماد ساتھی وزیر خزانہ اسحاق ڈار، صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی سے سیاسی معاملات پر پانچ ملاقاتیں کر چکے ہیں اگرچہ ان ملاقاتوں کا بظاہر کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا تاہم ملاقاتیں جاری رکھنے پر اتفاق ہوا ہے، بات چیت جاری رہے تو کچھ نہ کچھ نتیجہ نکل سکتا ہے، صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی بھی ملک میں سیاسی استحکام کیلئے اہم کردار ادا کرر ہے ہیں، ان کی کوشش ہے اپوزیشن اور حکومت آئندہ الیکشن کے معاملے میں کسی ایک نقطہ پر متفق ہو جائیں، پاک فوج میں میرٹ پر بہترین، باصلاحیت اور قابل افسروں کی تقرریاں عمل میں آچکی ہیں۔ 

اگرچہ فوج نے بطور ادارہ سیاست سے لا تعلق رہنے کا فیصلہ کیا ہے جو خوش آئندہ ہے مگر عوام اور سیاست دان جنرل عاصم منیر سے ملک میں سیاسی عدم استحکام کے خاتمہ کیلئے بہت سی تواقعات لگائے بیٹھے ہیں جنرل عاصم منیر ابھی پاک فوج میں اہم تبدیلیوں اور اقدامات کا جائزہ لے رہے ہیں  انہوں نے کچھ اہم تقرریاں بھی کی ہیں جن میں کور کمانڈر راولپنڈی اور آئی ایس پی آر کے ڈی جی کی تقرری شامل ہے جنرل عاصم منیر فوج جیسے اہم ادارے با صلاحیت، اہل اور قابل اعتماد افسروں کی تقرریاں کرنے کیلئے کوشاں ہیں انہیں اس کام میں یقیناً کچھ وقت لگ سکتا ہے اس کے بعد ہی وہ دوسری معاملات پر توجہ دیں سکتے ہیں جنرل عاصم منیر نے آرمی چیف کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں سنبھالتے ہی سب سے پہلے ایل او سی کا دورہ کیا اور فوجیوں کی پیشہ وارانہ تیاریوں کا جائزہ لیا ان کی ترجیحات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے۔ 

اس دورے کا مقصد بھارت کو مقبوضہ کشمیر اور گلگت بلتستان کے حوالے سے ان کے لیڈروں کے بیان کا سخت جواب دینا تھا جنرل عاصم منیر نے اس دورے بھارت کو’’شٹ اپ‘‘ کال دیتے ہوئے کہا کہ پاک فوج عوام کے تعاون سے ملک کے چپے چپے کا دفاع کرنے کیلئے ہمہ وقت تیار ہے اور کوئی بھی کسی غلط فہمی میں نہ رہے ہم کسی قسم کی بھی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیں گے، جنرل عاصم منیر کے اس بیان سے بھارتی لیڈر شپ اور میڈیا کی چیخیں نکل گئیں، کشمیریوں اور پاکستانی عوام نے ان کے اس بیان کو زبر دست خراج تحسین پیش کیا، یہ بات درست ہے کسی ملک کی فوج عوام کے تعاون کے بغیر جنگ نہیں جیت سکتی اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستانی عوام اپنی فوج سے بے پناہ محبت کرتے ہیں اور وہ فوج کی دہشتگردی کے خلاف جنگ اور محاذوں پر قربانیوں کی معترف ہے، تاہم کچھ عرصے سے عوام میں کچھ غلط فہمیاں پیدا ہوئی ہیں جنہیں دور کرنے کیلئے جنرل عاصم منیر کو اپنا بھر پور کردار ادا کرنا ہوگا۔ 

سابق وزیر اعظم عمران خان اپنی سیاسی اور عوامی قوت کا مظاہرہ کرچکے ہیں ان کا مطالبہ ہے کہ ملک میں فوری طور پر شفاف اور غیر جابندارانہ انتخابات کرائے جائیں، انہوں نے راولپنڈی میں اپنے آخری جلسہ میں پنجاب اور کے پی کے کی اسمبلیاں توڑنے کا اعلان کیا۔ انہوں نے اسمبلیاں توڑنے کے حوالے سے اراکین اسمبلی اور پارٹی رہنمائوں سے صلاح مشورہ مکمل کر لیا ہے اس بات کا امکان ہے، عمران خان دسمبر کے تیسرے ہفتے میں اسمبلیاں توڑ سکتے ہیں، اس بات کا بھی امکان ہے کہ عمران خان اس تاریخ میں توسیع کر دیں بظاہر تو وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی اور ان کے پالیسی میکر بیٹے مونس الٰہی بار بار کہہ چکے ہیں کہ پنجاب اسمبلی عمران خان  کی امانت ہے وہ جب کہیں گے ہم ایک منٹ ضائع کئے بغیر اسمبلی توڑ دیں گے مگر وفاقی حکومت اور بعض تحریک انصاف کے رہنمائوں کو چوہدری پرویز الٰہی کے اعلان پر یقین نہیں، سیاسی مبصرین کے مطابق چوہدری پرویز الٰہی کسی بیرونی اشارے کے بغیر اسمبلی نہیں توڑیں گے اس لئے وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ بڑے زور شور سے کہہ رہے ہیں عمران خان اگر مگر چھوڑیں اسمبلیاں توڑ دیں شاہد رانا ثنا للہ کو اندر کی اطلاع ہے کہ چوہدری پرویز الٰہی اسمبلی نہیں توڑیں گے دوسری طرف سابق صدر آصف علی زرداری بھی دوبارہ متحرک ہوں گئے ہیں انہوں نے چوہدری شجاعت حسین سے اسلام آباد میں ملاقات کی ہے اور مولانا فضل الرحمٰن، نواز شریف اور میاں شہباز شریف سے بھی رابطے کئے ہیں کہ کسی طرح پنجاب اسمبلی کو ٹوٹنے سے بچایا جائے وہ میاں نواز شریف کو قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ چوہدری پرویز الٰہی کو مسلم لیگ (ن) وزیر اعلیٰ تسلیم کرلے تاکہ ان کو عمران خان سے توڑا جاسکے۔ 

مگر میاں نواز شریف یہ بات ماننے کیلئے تیار نہیں، وہ کہتے ہیں کہ ہم پنجاب (ق) لیگ کے حوالے کیسے کرسکتے ہیں وہ حمزہ شہباز کو ہی وزیر اعلیٰ پنجاب بنانے کیلئے بضد ہیں۔ چوہدری پرویز الٰہی بھی منجھے ہوئے سیاست دان ہیں مگر وہ اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں مجبور ہیں چوہدری پرویزالٰہی اگر عمران خان سے الگ ہو کر کچھ عرصے کیلئے مزید وزیر اعلیٰ تو رہ سکتے ہیں مگر ان کا سیاسی مستقبل تباہ ہو جائے گا، چوہدری پرویزالٰہی اس بات سے بھی ڈر رہے ہیں اگر عمران خان نااہل قرار دے دیئے گے تو پھر تحریک انصاف کے ساتھ ان کا مستقبل کیا ہوگا تحریک انصاف عمران خان کے بغیر الیکشن جیتنے کی پوزیشن میں ہوگی یا ’’تتر بتر‘‘ ہوجائے گی، ملکی سیاست میں آئندہ دو ہفتے بہت اہم ہو ں گے دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان اسمبلیاں توڑنے میں کامیاب ہوں گے اور وہ توشہ خانہ کیس میں نااہلی سے کیسے بچ سکیں گے۔ ملک میں سیاسی اور معاشی عدم استحکام عروج پر ہے حکومت مخالف معاشی ماہرین دعویٰ کر رہے ہیں کہ ملک دیوالیہ ہونے کے قریب ہے ڈالر کی اڑان اوپر جا رہی ہے سٹاک ایکسچینج کریش کر گئی ہے۔ 

زر مبادلہ کے ذخائر خطر ناک حد تک کم ہوگئے ہیں اس وقت زرمبادلہ کے ذخائر 6 ارب 90 کروڑ ڈالر رہ گئے ہیں جن میں تین ارب چین اور تین ارب سعودی عرب بطور رہن رکھے گئے ہیں ہمارے اپنے صرف 90 کروڑ ڈالر ہیں فارما سیوٹیکل اور ٹیکسٹائل انڈسٹری بند ہور ہی ہے مالیاتی ایمر جنسی لگانے کے اطلاعات سے لوگوں میں خوف وہراس بڑھ گیا ہے لوگ ادھرا دھر بنکوں سے پیسہ نکال رہے ہیں جبکہ اس کے بر عکس حکومتی وزیر سب اچھے کی رپورٹ دے رہے ہیں، مہنگائی اس قدر زیادہ ہوگئی ہے۔ ملک میں بے روز گاری اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ لوگ دو وقت کی روٹی کو محتاج ہو گئے ہیں، چوری، ڈکیتی اور قتل و غیرت میں اضافہ ہو گیا ہے۔ 

بے روز گاری اس قدر بڑھ گئی ہے خدا نخواستہ لوگ لوٹ مار شروع کر دیں حکومت سے نہ مہنگائی کنٹرول ہو رہی ہے اور نہ ہی معاشی حالت بہتر ہو رہی ہے اور دیوالیہ پن کسے کہتے ہیں آئی ایم ایف نے بھی ہم سے بات چیت کرنا بند کر دیا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف، وزیر خزانہ اسحاق ڈار، وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کو قوم کو اعتماد میں لینا چاہیے اور تمام سیاسی جماعتوں کی کانفرنس طلب کر کے صورتحال سے آگاہ کرنا چاہیے اور سب کو مل بیٹھ کر ملک کو اس بھنور سے نکالنا چاہیے۔

تجزیے اور تبصرے سے مزید
سیاست سے مزید