لاہور(مقصود اعوان) تحریک انصاف اورمسلم لیگ قاف کے درمیان سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے حوالے سے مذاکرات جاری ہیں ۔ ق لیگ کیلئے 4 قومی اور16 صوبائی نشستوں پر مشاورت مکمل ہوچکی۔ پاکستان تحریک انصاف اور مسلم لیگ قاف کی مذاکراتی ٹیموں کے درمیان متعدد اضلاع میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر ابتدائی طور پر اتفاق رائے ہوگیا ہے۔ تاہم دونوں جماعتوں کے درمیان سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے معاملے پر چوہدری شجاعت فیکٹر بھی شامل ہے۔ جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ جن حلقوں میں پاکستان تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ق) کے امیدوار منتخب ہوئے ہیں ان حلقوں میں دوبارہ انہی جماعتوں کو ٹکٹ دیئے جائیں گے۔ اور جن حلقوں میں پاکستان تحریک انصاف اور مسلم لیگ قاف کے امیدوار دوسرے اور تیسرے نمبر پر رہے ہیں ان حلقوں کا جائزہ لے کر جس پارٹی کا مضبوط امیدوار ہوگا اس پارٹی کو ہی نشست دینے کا فیصلہ کیاگیا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے جن چوبیس حلقوں میں قومی اسمبلی کے اراکین منحرف ہوئے، ان حلقوں میں نئے امیدواروں کو انتخابی میدان میں اُتارنے کیلئے بغور جائزہ لیاگیا ہے۔ ذرائع کے مطابق ابتدائی طور پر پنجاب کے قومی اسمبلی کے 141حلقوں میں اب تک پاکستان تحریک انصاف کو61، مسلم لیگ (ق) کو 4اور عوامی مسلم لیگ کو 2نشستیں دینے پر اتفاق ہوا ہے جبکہ 70سے زیادہ قومی اسمبلی کے حلقوں پر اگلی نشست میں غور ہوگا۔ ذرائع کے مطابق پاکستان تحریک انصاف اور قاف لیگ کے درمیان سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے معاملات بہت خوش اسلوبی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ مسلم لیگ ق قومی اورصوبائی اسمبلی کی مجموعی طور پر 41حلقوں کے ٹکٹ کے حصول کی خواہاں ہے۔ قومی اسمبلی کی 4اور پنجاب اسمبلی کی 16نشستوں پر مسلم لیگ (ق) کے مضبوط امیدواروں کو ٹکٹ دینے پر ابتدائی طور پر مشاورت مکمل ہوئی ہے۔ ان میں این اے 65چکوال ، این اے 68گجرات، این اے 69گجرات، این اے 86منڈی بہاؤالدین اور صوبائی حلقوں میں پی پی 24چکوال، پی پی 28گجرات، پی پی 29گجرات، پی پی 41سیالکوٹ، پی پی 67منڈی بہاوالدین، پی پی 65اور 68منڈی بہاؤالدین ، پی پی 30 گجرات قابل ذکر ہیں، جبکہ بہاؤلپور کے این اے 172سے وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ کی نشست پر نئے امیدوار کا نام زیر غور ہے۔ تاہم مذاکراتی ٹیمیں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی رپورٹ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کو پیش کریں گی جو وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی سے باہمی مشاورت کے بعد حتمی فیصلہ کرینگے۔ جن حلقوں میں مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے امیدوار منتخب ہوئے ہیں ان حلقوں میں دونوں پارٹیاں مضبوط امیدواروں کے چناؤ کے لیے مختلف ناموں پر غور میں مصروف ہیں۔