• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

خزانہ خالی: وزیر اعلیٰ محمود خان کے اربوں کے اعلانات

خیبر پختونخوا کا خالی خزانہ اور وزیر اعلیٰ کے اربوں کے اعلانات گلزار محمد خان بظاہر ایسا محسوس ہورہا ہے کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کی تحلیل کا معاملہ کچھ عرصہ کیلئے تھم گیا ہے اگر ہم خیبر پختونخوا اسمبلی کی بات کریں تو اس کی تحلیل کیلئے حالات تحریک انصاف کے حق میں تھے البتہ پنجاب کی صورت حال بہت مختلف تھی اور وہاں پر اسمبلی کی تحلیل کے معاملہ میں مشکلات کا سامنا اس لئے بھی کرنا پڑ رہا تھا کہ ایک تو وہاں پر اپوزیشن ارکان کی تعداد بہت زیادہ ہے، ساتھ ہی وزارت اعلیٰ کا منصب مسلم لیگ ق کے پاس ہے اس لئے بھی اسمبلی کی تحلیل کے حوالے سے اکثر سوالات اٹھائے جاتے رہتے تھے۔ 

اگر ہم خیبر پختونخوا کی بات کریں تو یہاں نہ صرف تحریک انصاف کو اسمبلی میں بھر پور اکثریت حاصل ہے بلکہ وزیر اعلیٰ نے بھی بار بار یہ واضح کیا ہوا تھا کہ عمران خان کے اشارے کے منتظر ہیں اور وہ چونہی ہدایت دیں گے تو اسمبلی تحلیل کردی جائے گی لیکن اس کیساتھ ساتھ یہاں پر اپوزیشن جماعتوں نے بھی اسمبلی کی تحلیل کاراستہ روکنے کیلئے کوئی کردار ادا نہیں کیا بلکہ غیر رسمی مشاورت کے نتیجے میں اپوزیشن نے تو یہ فیصلہ کیا کہ اسمبلی تحلیل روکوانے کیلئے کوئی کوشش نہیں کی جائیگی اور وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کیخلاف عدم اعتماد کی کوئی تحریک جمع نہیں کرائیں گے۔ 

دوسری جانب اپوزیشن جماعتوں بالخصوص جمعیت علمائے اسلام نے اسمبلی تحلیل ہونے کی صورت میں اگلے ایک سال کےلئےحکومتی سیٹ اپ کی تشکیل کی تیاریاں بھی مکمل کرلی تھیں، جے یو آئی کے ذرائع کا یہ دعویٰ تھا کہ کم از کم ایک سال کا سیٹ اپ لایا جائیگا چنانچہ جب پنجاب اسمبلی کی تحلیل کے راستے رک گئے تو خیبر پختونخوا اسمبلی کی تحلیل کو بھی پنجاب اسمبلی کی تحلیل کیساتھ مشروط کردیا گیا ، اگرچہ فواد چوہدری کے اعلان کے مطابق11جنوری کے فوراً بعد پنجاب اسمبلی توڑ دی جائے گی اور 20 جنوری کو خیبر پختونخوا اسمبلی تحلیل ہوگی لیکن ایسا دکھائی دے رہا ہے کہ فی الوقت آئندہ چند ماہ کے دوران اسمبلیوں کا مستقبل محفوظ ہے کیونکہ عمران خان خود اب اس امر کا اظہار کرنے لگے ہیں کہ الیکشن ہوتے نظر نہیں آتے چونکہ اسمبلیوں کی تحلیل کا مقصد ہی قبل از وقت انتخابات کی راہ ہموار کرنا تھا مگر اب ایسا لگ رہا ہے کہ تحریک انصاف بھی مزید چند مہینے چاہتی ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ کارکنوں کو مصروف رکھنے کیلئے تین ہفتوں کی احتجاجی تحریک کا اعلان کردیا گیا ہے، مہنگائی کے خلاف اس تحریک کے ذریعے پشاور سمیت ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے اور بھوک ہڑتالی کیمپوں کا انعقاد کیا جائیگا۔ 

ان ہی حالات میں خیبر پختونخوا کے سرکاری ہیلی کاپٹر کے نجی استعمال کو قانونی تحفظ فراہم کرنے کےلئے ہونے والی قانون سازی کے معاملہ پر گورنر خیبر پختونخوا اور صوبائی حکومت کے درمیان خاصی کشیدگی بھی دیکھنے میں آئی ، صوبائی حکومت نے گورنر حاجی غلام علی کو سرکاری ہیلی کاپٹر کے استعمال سے بھی روک دیا اور وزیر اعظم شہباز شریف کے دورہ ڈیرہ اسماعیل خان کے موقع پر گورنر کو سرکاری ہیلی کاپٹر دینے سے انکار کردیا جس کے فوراً بعد گورنر نے ہیلی کاپٹر کے نجی استعمال کو قانونی تحفظ فراہم کرنے کے بل پر دستخط سے انکار کرتے ہوئے اسے اختلافی نوٹ کیساتھ واپس بھجوادیا تھا تاہم جب سپیکر مشتاق غنی کی جانب سے اسے منی بل قرار دیکر واپس گورنر کو بھجوایا گیا تو حاجی غلام علی کے پاس دستخط کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ 

تاہم گورنر ہاؤس میں ہونے والی مشاورت کے بعد اب اس بل کے خلاف عدالتی جنگ شروع کی جارہی ہے اور بظاہر یہ محسوس ہورہا ہے کہ آنے والے دنوں میں اس ایشو کی وجہ سے فریقین کے درمیان کشیدگی میں مزید اضافہ ہوتا رہے گا البتہ یہ امر طے ہے کہ اپوزیشن جماعتیں کم از کم خیبر پختونخوا میں ابھی تک تحریک انصاف اور اس کی صوبائی حکومت کو ٹف ٹائم دینے میں ناکام رہی ہیں جہاں تک تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کا تعلق ہے تو ایک طرف وزیر اعلیٰ محمود خان یہ اعلانات کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ وہ صوبہ کے حقوق کےلئے جلد ہی نہ صرف اسلام آباد میں دھرنا دیں گے بلکہ عدالت سے بھی رجوع کریں گے مگر ساتھ ہی وہ اسمبلی کی تحلیل کے اعلانات بھی فرماتے رہتے ہیں جس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وزیر اعلیٰ کے سامنے کوئی واضح پالیسی ہی نہیں کیونکہ اگر وہ اسمبلی تحلیل کرنے میں سنجیدہ ہیں تو پھر کس حیثیت سے اسلام آباد میں احتجاج اور سپریم کورٹ سے رجوع کریں گے؟ 

ساتھ ہی یہ امر بھی ان دنوں سیاسی حلقوں کیلئے حیرت کا باعث بنا ہوا ہے کہ صوبائی حکومت بار بار خزانہ خالی ہونے کا رونا رو رہی ہے حتیٰ کہ سرکاری ملازمین کیلئے تنخواہوں کا انتظام بھی بمشکل ہوپا رہا ہے مگر دوسری جانب وزیر اعلیٰ محمود خان مسلسل مختلف اضلاع کے دوروں میں مصروف ہیں جہاں وہ نہ صرف مکمل ہونے والے منصوبوں کا افتتاح کررہے ہیں بلکہ حیرت انگیز طور پر ہر ضلع میں اربوں روپے کے ترقیاتی منصوبوں کا اعلان بھی کرتے دکھائی دے رہے ہیں، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ترقیاتی بجٹ منجمد ہوچکا ہے ، ترقیاتی منصوبے رکے ہوئے ہیں اور مختلف قسم کے پراجیکٹ پر کام بند پڑا ہوا ہے تو ایسے میں اربوں روپے کے نئے ترقیاتی منصوبوں کے اعلانات کا کیا مطلب ہے؟ 

کیا وزیر اعلیٰ محمود خان خیبر پختونخوا کے عوام کو سیاسی دھوکہ دینے میں مصروف ہیں؟ یا پھر انہیں صورت حال کا علم ہی نہیں؟ بہرحال جو بھی وجہ اور بات ہو وزیر اعلیٰ کے متواتر اعلانات پر سنجیدہ فکر حلقوں کی حیرانگی بے جا دکھائی نہیں دیتی، دوسری جانب خیبر پختونخوا کی اپوزیشن جماعتیں اگرچہ عملی طور پر تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کو ٹف ٹائم دینے میں ناکام رہی ہیں مگر پھر بھی اپنی انٹری ڈالنے کے لئے کوئی نہ کوئی مصروفیت نکال لیتی ہیں اور اسی حکمت عملی کے طور پر اتوار کو پشاور میں کل جماعتی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس کا مقصد صوبہ میں امن و امان کی صورت حال اور معاشی مشکلات کے اسباب کا جائزہ لینا تھا، اے پی سی کی میزبانی جمعیت علمائے اسلام نے کی، اگر دیکھا جائے تو کم از کم امن و امان کی صورت حال کے حوالے سےاس قسم کی مشترکہ پالیسی کی تشکیل کی ضرورت پہلے سے کئی بڑھ کر محسوس کی جارہی ہے بہتر یہ ہوتا کہ امن و امان کی صورت حال پر تحریک انصاف کی صوبائی حکومت خود ہی کوئی کل جماعتی کانفرنس طلب کرتی اور اس ایک نقطہ پر مشترکہ حکمت عملی وضع کرکے امن کے دشمنوں کو واضح پیغام دیا جاتا۔

تجزیے اور تبصرے سے مزید
سیاست سے مزید