سائنس کے ایک پروفیسر کے عجیب و غریب تجربے پر مبنی ایک خوف ناک فلم کرسٹوفرلی کی مشہور فلم ’’ہورر آف ڈریکولا‘‘ سے متاثر ہو کر بنائی جانے والی فلم ’’زندہ لاش‘‘ کے پروڈیوسر عبدالباقی تھے، جو اداکار حبیب کے بہنوئی بھی تھے۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا سنسنی خیز تجربہ فلم کی صورت میں 1967 میں فلم زندہ لاش کے نام سے کیا گیا۔ اس دور میں ہالی وڈ کی بلاک بسٹر کلر فلم کو پاکستان میں کاپی کرنا بہت بڑا رسک تھا، شائقین کو جب ایک اعلیٰ معیار کی اورجینل فلم باآسانی دیکھنے کو مل جاتی تھی، تو کون پاکستانی کاپی فلم دیکھنے کے لیے سنیما ہاؤسز کی طرف آتے، حالاں کہ فلم ’’زندہ لاش‘‘ کو عالمی معیار کی فلم بنانے کے لیے فلم ساز عبدالباقی اور ہدایت کار خواجہ سرفراز نے بے حد محنت کی تھی، خصوصاً کیمرہ مین رضا میر اور نبی احمد کی انگریزی انداز اور مناظر کے لیے لائٹنگ قابل دید تھیں، کیا ہی اچھا ہوتا کہ یہ فلم اس دور میں بلیک اینڈ وائٹ بننے کے بہ جائے، کلر میں بنائی جاتی، تو شاید اس کی کام یابی کے امکان روشن ہو جاتے۔
ہدایت کار خواجہ سرفراز فلم کے ہر منظر میں اپنی ذہانت اور قابلیت کے ساتھ واضح طور نظر آئے۔ رات کی تاریکی کے مناظر، پراسرار محل کے تہہ خانے اور وہاں پر مکڑی کے جالوں اور پس منظر میں دل ہلا دینے والا میوزک، یہ فلم جب سنسر کے لیے پیش کی گئی، تو اسے بڑی مشکل سے پیش کیا گیا اور اسے صرف بالغان کے دیکھنے کا سرٹیفکیٹ دیا گیا۔ یہ فلم 14جولائی 1967 میں ملک بھر میں نمائش کے لیے پیش کی گئی، کراچی کے رینو اور لاہور کے کیپٹل سینما میں اس کا بزنس تسلی بخش نہ رہا، لیکن اپنے سیکنڈ رن میں کراچی کے ناز سنیما اور ملک کے دیگر شہروں میں اس فلم نے ہائوس فل کی ریٹنگ باآسانی حاصل کرلی۔
فلم کا سب سے اہم کردار سینئر اداکار ریحان مرحوم نے ادا کیا تھا، جو کہانی کا بنیادی کردار تھا، یہ ایک سائنس کے پروفیسر تابانی کا کردار تھا، جس نے شہر سے دور جنگل میں ایک پراسرار بنگلہ بنایا ہوا تھا، اسی بنگلے میں اس نے ایک لیبارٹری بنا رکھی تھی۔ یہ پروفیسر انسان کی موت پر یقین نہیں رکھتا تھا اور اس کے شیطانی دماغ میں ایک روز آب حیات ایجاد کرنے کا خیال آیا کہ جس کے چند قطرے پینے سے انسان ہمیشہ زندہ رہے گا۔
اس شیطانی ایجاد کے تجربے کے لیے وہ حسین اور خُوب صورت لڑکیوں کو بھینٹ چڑھانے لگا۔ جوں جوں اس نے اپنے تجربے کو کام یاب کرنے کے لیے معصوم عورتوں کو اپنا شکار بنانا شروع کیا، اس کی جسمانی ہئیت میں خوف ناک تبدیلی پیدا ہو گئی، خصوصاً اس کے دانت جو خوں خوار، درندے کی طرح نوجوان حسین عورتوں کی گردن میں پیوسٹ ہو کر خون کے قطرے پینے لگا۔ دانتوں کے زہر سے وہ عورتیں ابدی نیند سو جاتیں، وہ جب پہلی بار کسی عورت سے ملتا، تو وہ اسے اپنی شخصیت سے متاثر کرتا اور وہ رات کو ہر طرح کا بھیس بدل کر اپنے مطلوب شکار تک پہنچ جاتا۔
دن کی روشنی میں وہ ایک عام انسان کی طرح لوگوں سے ملتا، جیسے ہی رات ہوتی، اس کا چہرہ ایک بھیانک ڈریکولا کی شکل میں تبدیل ہو جاتا ہے، جس عورت کی گردن پر وہ اپنے دانت پیوست کرتا، وہ ایک عام عورت سے زندہ لاش بن کر بھٹکتی رہتی اور دیگر لوگوں کا خون چوستی رہتی۔
وہ ایک بد روح بن کر بھٹکتی رہتی۔ شہر کے ایک ڈاکٹر عقیل (اسد بخاری) نے پروفیسر تابانی کے پراسرار محل کا رخ کیا۔ یہ جاننے کے لیے کہ پروفیسر کا اصل چہرہ کیا ہے، تو وہ پروفیسر کی ایک شاگرد لڑکی مِس نسرین کی بد روح کا شکار ہو کر ہلاک ہوگیا۔ ڈاکٹر کی منگیتر شبنم (دیبا) کی تصویر دیکھ کر پروفیسر تابانی اسے اپنا اگلا شکار بنانے کا ارادہ کرتا ہے۔ ڈاکٹر عقیل کی موت کا معمہ حل کرنے کے لیے ڈاکٹر عقیل کا چھوٹا بھائی حبیب موجود ہیں، ایک ڈاکٹر ہے، اپنے ایک دوست پرویز (علائو الدین) کے ساتھ پروفیسر تابانی کے پراسرار محل میں آتا، جہاں وہ خفیہ تہہ خانے میں جاتے ہیں۔
دوسری جانب پروفیسر رات کے وقت ڈریکولا بن کر شبنم کو اپنا شکار بناتا ہے۔ پروفیسر تابانی ڈریکولا بن کر شبنم کی گردن پر اپنے خوں خوار دانت پیوست کرتا ہے۔ ڈاکٹر حبیب موقع پر پہنچتا ، مگر پروفیسر تابانی فرار ہوجاتا ہے۔ ڈاکٹر شبنم کی گردن دیکھ کر پرویز سے کہتا ہے کہ شبنم اسی ظلم کا شکار ہوئی ہے، مگر پرویز اس بات کو ماننے سے انکار کرتا ہے، شبنم جو اب ایک بدروح بن کر زندہ لاش بن چکی تھی۔ ڈاکٹر حبیب خنجر کے ذریعے شبنم کے جسم سے گندہ خون نکالنے کی بات کرتا ہے۔
پرویز کی بیوی شیریں، شبنم کی قبر پر جاتی ہے، مگر قبر کھلی ہوتی ہے اور وہاں کوئی لاش نہیں ہوتی۔ شیریں گھر آکر یہ بات اپنے شوہر پرویز کو بتاتی ہے۔ پرویز کی معصوم بچی سے شبنم سے ملنے آتی ہے۔ وہ رات کو اسے ویرانے میں لے جانے کی بات کرتی ہے۔ پروفیسر تابانی، پرویز کے گھر فون کرکے اس کی بیوی شیریں کو پرویز کے ایکسیڈنٹ کی جھوٹی اطلاع دے کر اسے بلاتا ہے اور پھر کار میں بٹھا کر اپنے پراسرار محل کی طرف لے جاتا ہے۔ ڈاکٹر حبیب اس کا پیچھا کرتا ہے۔ پروفیسر شیریں کو پھینک کو چلا جاتا ہے۔
ڈاکٹر حبیب اور پرویز گولڈن گرائونڈ ہوٹل کے بوڑھے مینیجر سے ملا کر پروفیسر تابانی کا وہ رازمعلوم کرلیتے ہیں، جس سے اس کی موت واقع ہو سکتی ہے۔ سورج کی ایک کرن اس بدروح پروفیسر کا خاتمہ کر سکتی ہے۔ ڈاکٹر حبیب اس کے پراسرار محل میں جاتا ہے، جہاں پروفیسر اس پر حملہ آور ہوتا ہے۔ دونوں میں خوب لڑائی ہوتی ہے۔ ڈاکٹر، رب سے مدد مانگتا ہے۔ اس کی دُعا قبول ہوتی ہے۔ محل کا ایک بیرونی دروازہ ٹوٹ کر گرتا ہے، جس سے سورج کی کرنیں پروفیسر کے چہرے پر پڑتی ہیں، وہ زمین بوس ہو کر گرتا ہے۔ اس کے مکروہ چہرے کی ہئیت تبدیل ہو کر بھیانک شکل اختیار کرتے ہوئے ہمیشہ کے لیے ابدی نیند سو جاتی ہے اور اس شیطان کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔
اس فلم میں اداکار حبیب نے ڈاکٹر حبیب، علائو الدین نے پرویز، دیبا نے شبنم، یاسمین نے شیریں کے کردار کیے تھے، جب کہ نسرین۔ چھم چھم، شیلا، نذر رنگیلا، منور ظریف، بے بی نجمی، لطیف چارلی اور طالش بھی اس فلم کی کاسٹ میں شامل تھے۔ فلم کی کہانی اور ڈائریکشن خواجہ سرفراز کا نام تھا۔ مکالمے نسیم رضوان، گانے مشیر کاظمی نے لکھے تھے۔ فلم کے موسیقار تصدق حسین تھے، پوری فلم میں صرف دو ہی گانے تھے۔ فلم کا بیک گرائونڈ میوزک ہالی وڈ کی ہورر فلموں سے لیا گیا تھا۔ فلم کی لاجواب فوٹو گرافی رضامیر اور نبی احمد کے فن کا شاہکار تھی۔
پوری فلم کو ایک خاص رفتار اور ٹیمپو دینے میں ایڈیٹر اصغر نے کمال فن کا مظاہرہ کیا تھا۔ فلم کے تمام سیٹ انگریزی فلموں کی طرح ڈیزائن کرنے کے لیے اسلام شہابی نے بڑی مہارت سے کام کیا تھا۔ میک اپ کے شعبے میں ایم نذیر نے خصوصاً اداکار ریحان کے میک اپ پر بہت محنت کی اور جب فلم کے اختتام پر اس کا بھیانک چہرہ رونما ہوتا ہے، اسے حقیقت کا رنگ دینے میں وہ بے حد کام یاب رہے، ایم نذیر معروف اداکار رتن کمار کے بھانجے تھے۔ پاکستان میں ہالی وڈ کے طرز پر بننے والی یہ یادگار فلم اپنے معیار کے اعتبار سے بہت اعلیٰ تھی، یہ یادگار فلم ڈی وی ڈی پر موجود ہے ، جسے امریکا کی ایک نجی ویڈیو کمپنی نے بہت ہی صاف اور ماسٹر پرنٹ میں ریلیز کیا ہے۔