پنجاب اسمبلی کی تحلیل کے بعد ملک کے سب سے بڑے صوبہ میں 90 دن کے اندر انتخابات کرانے کا عمل شروع ہو چکا ہے، جب عمران خان نے پہلی بار دو اسمبلیاں توڑنے کا اعلان کیا تھا، تو اکثر لوگوں کو اس بات کا یقین نہیں تھا کہ وہ اس پر عمل بھی کریں گے، عمومی طور پر یہی سمجھا جا رہا تھاکہ وہ عام انتخابات کےلئے وفاقی حکومت پر دباؤ ڈال رہے ہیں، یہ بھی قیاس آرائیاں ہوتی رہیں کہ شاید چوہدری پرویز الٰہی پنجاب توڑنے کے حوالے سے عمران خان کی ایڈوائس پر عمل نہ کریں اور یہ معاملہ کسی نہ کسی طرح آگے بڑھتا رہے، مگر یہ تمام باتیں اور قیاس آرائیاں غلط ثابت ہوئیں اور عمران خان کے کہنے پر چوہدری پرویز الٰہی نے پنجاب اسمبلی تحلیل کرنے کی ایڈوائس گورنر کو بھیج دی، یوں ملکی سیاسی تاریخ میں پہلی بار ایک اسمبلی کو کسی وزیر اعلیٰ نے اپنی ایڈوائس پر تحلیل کر دیا ہے۔
ماضی میں اس کی کوئی اس لیے مثال نہیں ملتی کہ اسمبلیاں دیگر اقدامات کے ذریعے تو وقت سے پہلے ٹوٹتی رہی ہیں، مگر کسی سیاسی مقصد کے تحت اسمبلی کا ٹوٹنا پہلی بار دیکھنے میں آیا ہے، مسلم لیگ ن نے انتخابات میں بھرپور حصہ لینے کا اعلان کیا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ پنجاب میں اس بار وہ اپنی حکومت بنائیں گے، تاہم صورتحال اتنی سادہ اور آسان نظر نہیں آتی، کیونکہ اس وقت جو ملک کے حالات ہیں اور مہنگائی نے جس طرح عوام کی زندگی کو مشکل بنا رکھا ہے، اس میں مسلم لیگ ن کے لئے عوام کو اپنی طرف مائل کرنا آ سان مرحلہ نہیں ہوگا ، پھر ابھی یہ بھی واضح نہیں ہے کہ پنجاب میں انتخابات پی ڈی ایم کے مشترکہ پلیٹ فارم سے لڑے جائیں گے، یا مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی اپنے علیحدہ امیدوار کھڑے کریں گی۔
جہاں تک سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا تعلق ہے تو پیپلز پارٹی کی حتی الامکان یہ کوشش ہوگی کہ وہ پنجاب کے زیادہ سے زیادہ حلقوں میں اپنے امیدوار سامنے لائے، کیونکہ آ صف علی زرداری بہت عرصہ سے یہ کہہ رہے ہیں کہ پنجاب میں پیپلز پارٹی اپنی حکومت بنانا چاہتی ہے، دوسری طرف تحریک انصاف کو یہ برتری حاصل ہے کہ اس نے اپنی حکومت کو ختم کرکے انتخابات کا راستہ اختیار کیا ہے اور پھر سب سے بڑی بات یہ ہےکہ اس کے پاس مہنگائی کا ایشو بھی ہے، جس کے ذریعے وہ اپنی انتخابی مہم کو کامیابی سے چلا سکتی ہے اور اس کا آغاز بھی کر دیا گیا ہے، ملتان میں مہنگائی کے خلاف شاہ محمود قریشی کی قیادت میں ایک بڑی ریلی نکالی گئی۔
یہ ریلی اسی حلقہ سے نکالی گئی ،جہاں سے ان کے بیٹے زین قریشی ایم پی اے منتخب ہوئے ہیں، گویا یہ ایک طرح سے انتخابی مہم کا آغاز بھی تھا ، شاہ محمود قریشی نے اس موقع پر دھواں دار خطاب کیا، اس میں حکومت کی معاشی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے پنجاب کے انتخابات کا بھی ذکر کیااور یہ امید ظاہر کی کہ الیکشن میں پی ڈی ایم کی جماعتوں کو عبرتناک شکست ہوگی اور پنجاب میں تحریک انصاف بھاری اکثریت سے کامیاب ہو کر ایک مضبوط حکومت بنائے گی، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس حوالے سے صورتحال واضح ہوتی جائے گی ، البتہ فی الوقت یہی نظر آتا ہے کہ 90 دن کے اندر اگر انتخابات ہوئے تو پنجاب میں بہت بڑا انتخابی معرکہ دیکھنے میں آئے گا۔
انتخابی معرکہ کی تیاریاں تو قومی حلقہ 193 راجن پور میں بھی جاری ہیں، جہاں تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی جعفر لغاری کی وفات کے بعد نشست خالی ہوئی ہے، جس پر ضمنی انتخاب کا اعلان کیا جا چکا ہے، اس حلقہ میں جو لغاری قبیلہ کے بڑوں کی ہمیشہ آماجگاہ رہا ہے، لغاری خاندان کا ہی کوئی فرد کامیاب ہوتا آیا ہے، جعفر لغاری کی اہلیہ مینا لغاری جو ایک زمانہ میں خود بھی ایم این اے رہی ہیں، دوہری شہریت کی وجہ سے اس الیکشن میں حصہ نہیں لے سکتیں جبکہ دوسری طرف اویس لغاری جو سابق صدر مرحوم فاروق خان لغاری کے بیٹے ہیں، اپنی اگلی نسل کو اس انتخابی دنگل میں اتارنا چاہتے ہیں، ان کا تعلق مسلم لیگ ن سے ہے اور ان کی کوشش ہے کہ اس حلقہ کے ضمنی انتخاب کے لئے ان کے بیٹے کو پی ڈی ایم کا ٹکٹ مل جائے، مگر اس میں ایک رکاوٹ ہے ، پی ڈی ایم انتخابی اتحاد فارمولا کے مطابق 2018ء کے انتخابی نتائج کے حوالے جس جماعت کا امیدوار اس حلقہ میں دوسرے نمبر پر رہا ہوگا اسے ضمنی انتخاب میں ٹکٹ دی جائے گی ، 2018ءکے انتخابات میں پیپلز پارٹی کی امیدوار شازیہ عابد اگرچہ تیسرے نمبر پر رہی تھی مگر چونکہ دوسرے نمبر پر آنے والے امیدوار آزاد حیثیت سے لے رہے تھے، اور ن لیگ کا امیدوار ہی نہیں تھا ، جماعتی بنیادوں پر کیونکہ شازیہ عابد دوسرے نمبر پر رہی تھیں ، اس بنیاد پر پیپلزپارٹی یہ چاہتی ہے کہ یہاں سے ان کے امیدوار کو پی ڈی ایم کا ٹکٹ دیا جائے۔
ذرائع کے مطابق اویس لغاری نے اپنے بیٹے کو ٹکٹ دلوانے کے لئے رابطے تیز کر دئیے ہیں، ان کی پیپلز پارٹی جنوبی پنجاب کے صدر مخدوم احمد محمود سے بھی ملاقات ہو چکی ہے جبکہ ذرائع کے مطابق سلمان شہباز نے بھی لاہور میں ان سے ملاقات کرکے لغاری خاندان کو ٹکٹ دینے کی سفارش کی ہے، جس پر پیپلز پارٹی کی طرف سے یہ تجویز سامنے آئی ہے کہ اس حلقہ کے نیچے صوبائی اسمبلیوں کی جو دو نشستیں ہیں وہ پھر پیپلزپارٹی کے امیدواروں کو دے دی جائیں ، اب چونکہ اس حلقہ کے ضمنی انتخاب اور اس کے بعد پنجاب اسمبلی کے انتخابات یکے بعد دیگرے ہونے جا رہے ہیں، اس لیے اب مسلم لیگ ن کو کم از کم اپنی دو صوبائی نشستیں راجن پور سے پیپلز پارٹی کو دینا پڑیں گی۔ادھر جعفر لغاری کی اہلیہ مینا لغاری اپنی دوہری شہریت چھوڑنے پر آمادہ ہو چکی ہیں۔
دوسری طرف مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے بھی اپنے امیدواروں کو متحرک ہونے کا کا کہہ دیا ہے ،یہاں کیا پاور شیئرنگ کا فارمولا نافذ ہوتا ہے ، اس کے لئے تھوڑا انتظار کرنا پڑے گا ، البتہ یہ حقیقت ہے کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے پاس پرانے امیدوار تو ضرور ہیں ، تاہم انہیں مضبوط امیدوار نہیں کہا جا سکتا، کیونکہ پچھلے ساڑھے چار برسوں میں انہوں نے عوام سے اپنا رابطہ تقریباً منقطع رکھا ہے اور تنظیمی لحاظ سے بھی خاص طور پر مسلم لیگ ن انتشار کا شکار رہی ہے، کیونکہ مرکزی سطح پر قیادت کی دھڑے بندی کے باعث کے اثرات نچلی سطح تک پہنچے اور یہ تقسیم آج بھی برقرار ہے۔