• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

سندھ میں پیپلز پارٹی کا بڑا بلدیاتی معرکہ

سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن کے احکامات کے بعد سندھ میں بلدیاتی انتخابات کا دوسرا مرحلہ مکمل ہوا ایم کیو ایم نے حلقہ بندیوں پر متعرض ہوتے ہوئے بلدیاتی انتخاب کا بائیکاٹ کردیا تھا جبکہ بانی ایم کیو ایم کی جانب سے بھی بائیکاٹ کا پہلے ہی اعلان کیا جاچکا تھا بلدیاتی انتخابات گوں مگوں کی کیفیت میں ہوئے پولنگ سے 8 گھنٹے قبل تک عوام کی اکثریت یہ سمجھتی رہی کہ انتخاب ملتوی ہوجائیں گے گورنرآرڈیننس جاری کریں گے تاہم ایسا کچھ نہیں ہوا بے یقینی کی فضا اور ایم کیو ایم لندن اور پاکستان کے بائیکاٹ کے سبب ٹرن آؤٹ انتہائی کم رہا ایم کیو ایم کے رہنماؤں نے کہا کہ کراچی کا جو بھی میئر بنے گا وہ ایم کیو ایم کے صدقے کے بدلے بنے گا۔ 

کم ٹرن آؤٹ پر ایم کیو ایم پاکستان کے کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے کہا ہے کہ کراچی اور حیدرآباد کے لوگوں نے ایم کیو ایم کے حق میں اپنے گھروں میں بیٹھ کر جعلی الیکشن کی قلعی کھول دی، ایم کیو ایم حکومتیں گرانے اور چلانے کا ٹھیکہ واپس لے رہی ہے، الیکشن کمیشن نے غیرمنصفانہ طرزعمل اختیار کیا حلقہ بندیوں کے معاملے میں الیکشن کمیشن جانبدارانہ رہا الیکشن کمیشن نے اپنے فرائض سے غفلت برتی جنہوں نے آج ہمارے حقوق کاسودا کرتے ہوئے الیکشن میں حصہ لیا ان کو یہ شہر کبھی معاف نہیں کرے گا، کراچی حیدرآباد جیت گیا ، دھاندلی ہار گئی ، حیدر آباد کراچی میں آج کا ٹرن آؤٹ انتہائی کم رہا، ووٹ کاسٹ ہونے کی تعداد کو ٹھپے نے شکست دی ہے۔

تاہم پی پی پی کے رہنما سعید غنی نے کہاکہ کم ٹرن آؤٹ بے یقینی کی وجہ سے رہا حیدرآباد ودیگر شہروں کے نتائج پولنگ کے چند گھنٹوں بعد ہی آگئے تاہم کراچی کے سات اضلاع کے نتائج جو 28 گھنٹے گزرنے کے باوجود نہیں آسکے اس غیرمعمولی تاخیر پر جماعت اسلامی نے وزیراعلیٰ ہاؤس سمت شہر کے اہم مقامات پر دھرنے دینے کی دھمکی دی جبکہ پی ٹی آئی نے بھی شدید احتجاج کیا الیکشن میں بڑے پیمانے پر بے ضابطگیاں ہوئی کراچی میں جماعت اسلامی نے 9 حلقوں کے نتائج تبدیل کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے عدالت جانے کا عندیہ دیا ہے۔ 

حیدرآباد ، دادو جامشورو۔ دین۔ مٹیاری۔ سجاول میں پیپلز پارٹی کو برتری حاصل رہی، حیدرآباد میں پیپلز 96 ، پی ٹی آئی23، جماعت اسلامی اور آزاد امیدوار ایک ایک یوسی جیتنے میں کامیاب ہوگئے، بدین، مٹیاری، ٹھٹھہ، سیہون، گھارو میں پیپلزپارٹی امیدوار جیت گئے، میہڑ میں تحریک انصاف کے امیدوار جیت گئے، مٹیاری ضلع میں جی ڈی اے کے نصف درجن سے زائد امیدوارکامیاب ہوگئے۔ حیدرآباد میونسپل کارپوریشن کے 9 ٹاؤنز کی 160 یونین کمیٹیز میں سے پیپلز پارٹی نے 96، پی ٹی آئی نے 27، جماعت اسلامی نے 1 اور ایک آزاد امیدوار نے غیر سرکاری اور غیرحتمی نتائج کے مطابق کامیابی حاصل کرلی ہے۔

دوسری طرف حیدرآباد، بدین، ٹھٹھہ، مٹیاری، سجاول، گھارو اور میہڑ کے الیکشن نتائج رات دس بجے تک آگئے تھے، کراچی کے نتائج بھی رات 10 بجے تک معمول پر آتے رہے تاہم اچانک نتائج آنے کا سلسلہ رک گیا، امیدوار رات گئے تک منتظر تھے، سیاسی جماعتوں نے نتائج میں تاخیر پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے دھاندلی کے الزامات لگائے، دوسری جانب ڈی آراوز کا کہنا ہے کہ رزلٹ جمع کررہے ہیں، الیکشن کمشنر سندھ اعجازانورچوہان کا کہناہے کہ نتائج جمع کرنے کا عمل پیچیدہ ہے، اس میں وقت لگ رہا ہے، غیرسرکاری غیرحتمی نتائج کے مطابق حافظ نعیم، شمیم نقوی، نجمی عالم جیت گئے، جبکہ خرم شیرزمان کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

غیر سرکاری غیر حتمی نتائج کے مطابق بلدیاتی انتخاب کے دوسرے مرحلے کوئی بھی جماعت حتمی اکثریت حاصل نہیں کرپائی 235 یوسیز کے نتائج کے مطابق پی پی پی 93 یو سیز کے چئیر مین اور وائس چئیرمین جیت کر پہلے نمر پر رہے جماعت اسلامی نے 86 پی ٹی آئی نے 40مسلم لیگ (ن) نے 7 جے یو آئی نے3 تحریک لبیک نے 2 مہاجر قومی موومنٹ نے ایک جبکہ تین ٓذاد امیدوار بھی کامیاب ہوئے اے این پی کوئی نشست حاسل نہیں کر سکی کراچی کے 235 یوسیز کے نتائج میں غیر معمولی تاخیر ہوئی اس ضمن میں کوئی ذمہ دار افسران جواب دینے سے اجتناب برتے رہے کراچی ڈویژن کے 7اضلاع میں 4990 پولنگ اسٹیشنز قائم کئے گئے، تھے جہاں84 لاکھ 5 ہزار 475 ووٹرزاپنا حق رائے دہی استعمال کرنا تھاکراچی ڈویژن میں چیئرمین، وائس چیئرمین اور جنرل ممبر کی نشست کیلئے 9 ہزار 58 امیدوار میدان میں تھے بلدیاتی انتخابات کے انعقاد میں بے یقینی کے باعث سیاسی جماعتیں مؤثر انتخابی مہم نہ چلاسکیں۔

حیرت انگیز طور پر تحریک لبیک وہ کارکردگی انتخاب میں پیش نہیں کرسکی جس کی ان سے امید کی جارہی تھیں انہوں نے مجموعی طور پر صرف ایک نشست حاصل کی جبکہ سندھ اسمبلی میں ان کے دوارکان ہیں، اے این پی کراچی میں تقریباً ختم ہوگئی انہوں نے کوئی نشست حاصل نہیں کی جبکہ جے یو آئی کی کارکردگی بھی انتہائی مایوس کن رہی اور انہوں نے مجموعی طور پر صرف دو نشستیں ہی حاصل کی بلدیاتی انتخاب نے کئی سیاسی جماعتوں کی سیاست لپیٹ دی بلدیاتی انتخاب کے بعد ایم کیو ایم پاکستان کو بھی اپنی سیاست کی راہ متعین کرنی ہوگی وہ کراچی کی سب سے بڑی اسٹیک ہولڈررہ چکی ہے انہوں نے عندیہ دیا ہے کہ وہ اقتدار کے بغیر عوامی مسائل حل کرے گی اور حکومتیں بچانے کا ٹھیکہ نہیں لے گی ضرورت پڑنے پر سڑکوں پر بھی آئے گی بلدیاتی انتخاب کے نتائج کے بعد اب مخصوص نشستیں حاصل کرنے کا مرحلہ آئے گا جس کے بعد میئر کا انتخاب ہوگا۔

میئر کے انتخاب کے لیے سیاسی جماعتوں میں جوڑتوڑ عروج پر ہوگا، پی پی پی، پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں سمت جماعت اسلامی کے ساتھ مل کر میئر لانا چاہیے گی تاہم شنیدیہ ہے کہ جماعت اسلامی، پی ٹی آئی کے ساتھ مل جائے اور اس طرح میئر کی نشست جماعت اسلامی جبکہ ڈپٹی میئرکا عہدہ پی ٹی آئی کو دے دے تاہم اس ضمن میں پی ٹی آئی اپنے بہت سے مطالبات منوا سکتی ہے، یہ آنے والے دنوں میں سیاسی جوڑ توڑ پر منحصر ہوگا کراچی کا میئر اگر جماعت نے پی ٹی آئی کے ساتھ مل کر بنایا تو ممکنہ طور پر پی پی پی کی صوبائی حکومت انہیں اختیارات نہیں دے گی۔

تجزیے اور تبصرے سے مزید
سیاست سے مزید