• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

قومی اتفاق رائے: وینٹی لیٹر پر پڑی معیشت کیلئے بہت ضروری

ملک اس وقت معاشی اور سیا سی بحران سے دو چار ہے۔ہر گزرتے دن کے ساتھ بحران حل ہونے کی بجائے بے یقینی میں اضافہ ہو رہا ہے جس سے ملک کو نا قابل تلافی نقصان ہو رہا ہے۔ قومی سیا سی قیادت بجائے اس کے کہ ملک کو بحران سے نکالنے کیلئے قومی اتفاق رائے پیدا کرے الٹا ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کیلئے الزام تراشی میں مصروف ہیں۔ حکمران اتحاد اس بحران کی ذمہ داری عمران خان پر ڈال رہا ہے اور عمران خان اسے پی ڈی ایم حکومت کی نا کامی قرار دے رہے ہیں۔

کسی کو یہ احساس نہیں کہ ملکی معیشت ونٹی لیٹر پر ہے ۔ حالات جس جانب بڑھ رہے ہیں اس سے نہ صرف معیشت تباہی کے دھانے پر پہنچ گئی ہے بلکہ جمہوری نظام کو نقصان پہنچ سکتا ہے ۔ملک کو درپیش بحران سے کوئی ایک سیا سی جماعت یا ایک اتحاد نہیں نکال سکتا بلکہ اس سنگین صورتحال کا تقاضا یہ ہے کہ قومی اتفاق رائے پیدا کی جا ئے۔ ذاتی اور پارٹی مفادات سے بالاتر ہوکر قومی مفاد کو ترجیح دی جا ئے ۔ قومی اتفاق رائے پیدا کرنے میں سب سے اہم کردار پی ٹی آئی کے چیئر مین اور سا بق وزیر اعظم عمران خان کا ہوسکتا ہے جو گزشتہ نو ماہ سے احتجاجی سیا ست کر رہے ہیں۔

انہیں اپنی انا اور ضد کو چھوڑ کر ملک کے وسیع تر مفاد میں تعمیری اور مثبت پا لیسی کو اپنا نا چاہئے کیونکہ ان کی جانب سے مسلسل احتجاج کی وجہ سے ملک میں سیاسی اور معاشی عدم استحکام نے جنم لیا۔وہ 10اپریل 2022سے احتجاج کی پالیسی پر گامزن ہیں ۔ وہ اب اپنے تمام کا رڈ کھیل چکے ہیں ۔ انہوں نے اپنے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کا میاب ہونے پر قومی اسمبلی سے باہر نکلنے کا اعلان کیا۔

ان کی جماعت کے 20ممبران منحرف ہوئے۔ ان کی پارٹی کے ایک ایم این اے راجہ ریاض اپو زیشن لیڈر اور دسرے ایم این اے نور عالم خان چیئر مین پی اے سی بن گئے ۔ محمد افضل ڈھا نڈلہ پار لیمانی لیڈر بن گئے ۔نو ماہ تک انہیں حکومت قومی اسمبلی وا پس بلاتی رہی اور ہ انکار کرتے رہے ۔ عمران خان کا موقف تھا کہ یہ اسمبلی غیر نمائندہ ہے یہاں چور ڈاکو بیٹھے ہیں اسلئے وہ اس اسمبلی میں واپس نہیں آئیں گے۔ ان کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ ملک میں فوری الیکشن کرائے جا ئیں۔ یہ مطالبہ منوانے کیلئے انہوں نے مظاہرے کئے۔ دھرنے دیے مگر ابھی تک ان کا یہ مطالبہ پورا نہیں ہوا۔ 

نو ماہ کے بعد اب انہیں یہ احساس ہو ا کہ انہیں اسمبلی کے فورم پر واپس جا نا چاہئے لیکن جونہی انہوں نے قومی اسمبلی میں واپس جانے کا عندیہ دیا تو حکمران اتحاد نے سیا سی چال چلی اور سپیکر راجہ پرویز اشرف سے کہا کہ پی ٹی آئی کے ممبران قومی اسمبلی کے استعفے تین مراحل میں منظور منظور کرلئے جا ئیں۔ پنجاب اور کے پی اسمبلی کی تحلیل کے بعد آخری مورچہ قومی اسمبلی تھی اب وہ اس سے بھی محروم ہوگئے۔ پی ٹی آئی کے استعفے کرنے کا مقصد یہ ہے کہ عمران خان اپو زیشن لیڈر ‘ پارلیمانی لیڈر اور چیئر مین پی اے سی کے اہم عہدے حاصل نہ کرسکیں۔ 

اپوزیشن لیڈر کا عہدہ اسلئے اہم ہے کہ نگران وزیر اعظم کا تقرر وزیر اعظم اور اپو زیشن لیڈر کی مشاورت سے ہونا ہے۔ چیئر مین پی اے سی کا عہدہ اسلئے اہم ہے کہ مو جودہ چیئر مین نور عالم خان نے عمران خان کے دور کے کئی کیسز کھلوا دیے ہیں اور ایسی رپورٹس منگوارہے ہیں جن سے عمران خان اور ان کی پارٹی کیلئے مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اپو زیشن لیڈر اکرم خان درانی اور وزیر اعلیٰ محمود خان نے پہلی ہی ملاقات میں اعظم خان کے نام پر اتفاق رائے کرلیا۔ بہر حال یہ اعتراف کرنا چاہئے کہ خیبر پختونخوا کی سیا سی قیادت نے سیا سی پختگی کا مظاہرہ کیا۔ 

اس کے برعکس پنجاب میں گورنر بلیغ الر حمٰن نے دستخط کرنے سے انکار کرکے دو دن ضائع کئے حالا نکہ وہ جانتے تھے کہ دو دن بعد خود بخود اسمبلی تحلیل ہو جا ئے گی۔ پنجاب میں اپو زیشن لیڈر حمزہ شہباز ملک سے باہر ہیں۔ انہیں اس موقع پر خود لاہور میں ہونا چاہئے تھا مگر انہوں نے ملک احمد خان کو نمائندہ مقرر کردیا۔ بہرحال چیف الیکشن کمشنر کی زیرصدارت اجلاس نے اتوار کو چاروں ناموں میں سے محسن رضا نقوی کو پنجاب کا نگران وزیر اعلیٰ نامزد کردیا۔ اس پراسیس میں یہ ثابت ہوگیا کہ پنجاب کی سیا سی قیادت ابھی تک اس قابل اور اہل نہیں کہ اتفاق رائے سے نگران وزیر اعلی کیلئے ایک نام پر متفق ہوسکیں۔ 

چوہدری پرویز الہیٰ کا یہ رویہ تو باعث تعجب بلکہ افسوسناک ہے کہ انہوں نے الیکشن کمیشن کے فیصلہ سے پہلے ہی یہ کہ دیا کہ وہ الیکشن کمیشن کے نامزد وزیر اعلیٰ کو نہیں چلنے دیں گے۔ جونہی الیکشن کمیشن نے محسن رضانقوی کو نامزد کیا تو حسب توقع پی ٹی آئی نے اسے مسترد کر دیا اور چوہدری پرویز الٰہی نے اس فیصلہ کے خلاف سپر یم کورٹ جانے کا اعلان کر دیا حا لانکہ الیکشن کمیشن نے اپنا آئینی فریضہ انجام دیا ہے اور الیکشن کمیشن تک معاملہ بھی وزیر اعلیٰ کی ناا ہلی کی وجہ سے ہی پہنچا ہےورنہ وہ سنجیدہ کو شش کرتے تو وہ اپو زیشن سے بامعنی مشاورت کرکے متفقہ نگران وزیر اعلیٰ پر اتفاق رائے پیدا کرسکتے تھے لیکن وہ چاہتے ہیں کہ صرف ان کا نامزد ہی نگران وزیر اعلیٰ بنے۔ 

بہر حال اب یہ مرحلہ طے ہوگیا ہے ۔اب پنجاب اور خیبر پختونخوا کے وزرائے اعلیٰ کو غیر جانبداری سے الیکشن کے شفاف اور آزادانہ ما حول میں انعقاد کو یقینی بنا نا ہے۔ آئین کے تحت الیکشن 90روز کے اندر ہونے چاہئیں لیکن ایک ملین ڈالر کا سوال اب بھی یہی ہے کہ کیا نوے دنوں میں دو نوں صوبوں میں الیکشن ہو جائیں گے ؟؟؟۔سچ تو یہ ے کہ اس کے امکانات ففٹی ففٹی ہیں کیونکہ سابق وزیر اعظم عمران خان کی زیرصدارت مشترکہ مفادات کی کونسل کے اجلاس میں یہ متفقہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ اگلے عام انتخابات نئی مردم شماری کی بنیاد پر ہوں گے۔ 

نئی مردم شماری کیلئے ٹریننگ کا مرحلہ مکمل کرلیا گیا ہے۔ ملک میں پہلی ڈیجیٹل مردم شماری شروع ہونے والی ہے۔ اگر موجودہ مردم شماری پر الیکشن کرائے گئے تو یہ سی سی آئی کے فیصلہ کی خلاف ورزی ہوگی ۔یہ فیصلہ سندھ حکومت کی درخواست پر کیا گیا تھا لہٰذا سندھ حکومت اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کرے گی۔اگر فیصلہ سندھ حکومت کے حق میں آگیا تو نگران حکومت کو توسیع دینا پڑے گی۔ 

ایسی صورت میں عمران خان کو سیا سی نقصان ہوگا جن کی دو نوں صوبوں میں حکومت میں تھی۔ قومی اسمبلی سے وہ پہلے ہی باہر ہوچکے ہیں ۔ نو ماہ کی احتجاجی تحریک سے ان کا پارٹی ورکر پہلے تھک چکا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ سے وہ تعلقات بگاڑ چکے ہیں۔ دوسری سیا سی جماعتوں سے ان کی ورکنگ ریلیشن شپ نہیں ہے ۔ اس طرح عملی طور پر وہ سیاسی تنہائی کا شکار ہو چکے ہیں۔

تجزیے اور تبصرے سے مزید
سیاست سے مزید