اسلام آباد: (جنگ نیوز)سپریم کورٹ آف پاکستان نے کہا ہے کہ لاپتہ افراد کے معاملے پر بڑوں کے خلاف کارروائی کرنا ہوگی۔سپریم کورٹ میں کراچی کی رہائشی مہرین بلوچ کی بچیوں کی بازیابی کے کیس کی سماعت ہوئی، عدالت نے 5 سال سے بچیوں کی عدم بازیابی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے سندھ پولیس کو ایک ماہ میں بچیوں کی بازیابی کا حکم دے دیا۔دوران سماعت چيف سيکرٹری سندھ نے بھی بچیوں کی عدم بازیابی کو پولیس کی ناکامی قرار ديتے ہوئے عدالت کو بتايا کہ اعلیٰ ترین سطح پر بازیابی کی کوشش کر رہے ہیں، جے آئی ٹی میں آئی بی کے ساتھ آئی ایس آئی اور ایم آئی اہلکاروں کو بھی شامل کیا ہے۔چيف جسٹس عمر عطا بنديال نے ريمارکس ديئے کہ بااثر افراد نے نہ صرف بچیوں کے اغواء میں مدد کی بلکہ ملزم کو تحفظ بھی دیا، عدالت ریاستی اداروں کو مضبوط کرنا چاہتی ہے، اس لئے ازخود نوٹس کا اختیار استعمال نہيں کيا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ بنیادی حقوق کا تحفظ کریں گے، سیاسی حالات میں آئینی ادارے صرف آئین و قانون کے مطابق کام کریں۔جسٹس اطہر من اللہ نے ريمارکس ديئے لاپتہ افراد کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی ہوتی تو آج یہ کیس نہ سننا پڑتا، کسی کو تو جوابدہ ہونا ہی پڑے گا، نام بتائیں کون ذمہ دار ہے اس کے خلاف کارروائی کریں گے۔ايڈيشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ریاستی اداروں کے خلاف کارروائی کرنا اچھا عمل نہیں ہوگا۔جسٹس عائشہ ملک نے کہا کیا ایک شخص اتنا مضبوط ہے کہ پورے سسٹم کو ناکام بنا دیا ہے۔جسٹس اطہر من اللہ نے ريمارکس ديئے تسلیم کریں کہ انتظامیہ میں اہلیت ہی نہیں کہ شہریوں کی حفاظت کر سکے، پانچ سال سے بچیاں غائب ہیں کوئی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں، لاپتہ افراد کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی ہوتی تو آج یہ کیس نہ سننا پڑتا، لاپتہ افراد کے معاملے پر بڑوں کے خلاف کارروائی کرنا ہوگی۔عدالت نے سندھ پولیس کو ایک ماہ میں بچیوں کی بازیابی کا حکم ديتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔