اسلام آباد (نیوز ایجنسیاں) سپریم کورٹ نے نیب قوانین میں ترمیم کیخلاف درخواست پر سماعت کے دوران عمران خان اور پی ٹی آئی کے کنڈکٹ پر سوالات اٹھا دیئے، جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کیا نیب ترامیم کے دوران ووٹنگ سے اجتناب کرنے والے کا حق دعویٰ بنتا ہے؟کیا کوئی رکن اسمبلی کو خالی چھوڑ سکتا ہے؟ کیا پارلیمان میں کرنے والا کام عدالتوں میں لانا پارلیمنٹ کو کمزور کرنا نہیں ؟استعفیٰ منظور نہ ہونے کا مطلب ہے کہ اسمبلی رکنیت برقرار ہے،چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ اس نقطے پر عمران خان سے جواب لینگے، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کے کنڈکٹ پر سوال تب اٹھتا اگر نیب ترامیم سے انکو کوئی فائدہ ہوتاجبکہ وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ عمران خان چاہتے تو نیب ترامیم کو اسمبلی میں شکست دے سکتے تھے،اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے پارلیمان کا بائیکاٹ کرنا پی ٹی آئی کی سیاسی حکمت عملی تھی، ضروری نہیں سیاسی حکمت عملی کا کوئی قانونی جواز بھی ہو، بعض اوقات قانونی حکمت عملی بھی سیاسی لحاظ سے بیوقوفی لگتی ہے، بعد ازیں سماعت 14 فروری تک ملتوی کر دی گئی۔جمعہ کو سپریم کورٹ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل بینچ نے نیب ترامیم کیخلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت کی۔جسٹس منصورعلی شاہ نے مزید کہا کہ رکن اسمبلی حلقے کی عوام کا نمائندہ اور انکے اعتماد کا امین ہوتا ہے، کیا عوامی اعتماد کے امین کا پارلیمنٹ کا بائیکاٹ کرنا درست ہے؟کیا قانون سازی کے وقت بائیکاٹ کرنا پھر عدالت آ جانا پارلیمانی جمہوریت کو کمزور کرنا نہیں؟ کیسے تعین ہوگا کہ نیب ترامیم عوامی مفاد اور اہمیت کا کیس ہے؟ عوامی مفاد کا تعین کیا عدالت میں بیٹھے 3ججز نے کرنا ہے؟ کیا عوام نیب ترامیم کیخلاف چیخ و پکار کر رہی ہے؟نیب ترامیم کونسے بنیادی حقوق سے متصادم ہے نشاندہی نہیں کی گئی۔عمران خان کے وکیل اسلامی دفعات اور آئین کے بنیادی ڈھانچے کا ذکر کرتے رہے،وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی کے تمام ارکان مشترکہ اجلاس میں آتے تو اکثریت میں ہوتے،اس دوران چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ صرف اس بنیاد پر عوامی مفاد کا مقدمہ نہ سنیں کہ درخواست گزار کا کنڈکٹ درست نہیں تھا؟ہر لیڈر اپنے اقدامات کو درست کہنے کیلئے آئین کا سہارا لیتا ہے، پارلیمان کا بائیکاٹ کرنا پی ٹی آئی کی سیاسی حکمت عملی تھی، ضروری نہیں سیاسی حکمت عملی کا کوئی قانونی جواز بھی ہو، بعض اوقات قانونی حکمت عملی بھی سیاسی لحاظ سے بے وقوفی لگتی ہے،پارلیمانی کارروائی کا بائیکاٹ دنیا بھر میں ہوتا ہے، برصغیر میں تو بائیکاٹ کی لمبی تاریخ ہے۔اس موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کا کہ پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں کتنے ارکان نے نیب ترامیم کی منظوری دی؟ مخدوم علی خان نے کہا کہ بل منظوری کے وقت مشترکہ اجلاس میں 166 ارکان شریک تھے، جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ مشترکہ اجلاس میں ارکان کی تعداد 446 ہوتی ہے یعنی آدھے سے کم لوگوں نے ووٹ دیا، عدالت صرف بنیادی حقوق اور آئینی حدود پار کرنے کے نکات کا جائزہ لے رہی ہے، جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ درخواست گزار نے نیب ترامیم عوامی مفاد اور بنیادی حقوق کی خلاف ورزی پر چیلنج کیں، بظاہر درخواست گزار کا نیب ترامیم سے کوئی ذاتی مفاد منسلک نہیں لگتا۔