• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میزبان: محمد اکرم خان

ایڈیٹر، جنگ فورم

رپورٹ : سلیم اللہ صدیقی

تصاویر: اسرائیل انصاری

شرکاء

زبیرطفیل(سابق صدر،ایف پی سی سی آئی)

اکرام سہگل(چیئرمین،پاتھ فائنڈرگروپ، پاکستان/بانی رکن ورلڈاکنامک فورم)

شبیہ اکرام(صدر،سی ای او کلب،کراچی/سابق نائب صدر،امریکن بزنس کونسل)

زبیر طفیل
زبیر طفیل

ورلڈ اکنامک فورم وہ مقام ہے جہاں پاکستان کو اچھے انداز میں پیش کیا جاسکتا ہے، کاروباری نیٹ ورکنگ ہوسکتی ہے، لیکن ہماری کاروباری برادری نے اس جانب کوئی خاص توجہ نہیں دی،وہاں پاکستان کی معاشی صلاحیت کو بہتر پیش کرسکتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہم ابھی مشکل میں ہیں، اس سے نکلنا ہوگا۔ 

ابھی خام مال کی بھی کسی انڈسٹری کی ایل سی نہیں کھل رہی، بڑی سے بڑی کمپنی کے پاس سے دوسے ڈھائی ماہ کا خام مال ہوتا ہے ، دو ماہ تو گزر گئے باقی کے چند دن رہ گئے ہیں،99 فیصد کمپنیوں کا خام مال فروری میں ختم ہوجائے گا اگر فیکٹریاں بند ہوگئیں تو بڑی تعداد میں لوگ بے روزگار ہوجائیں گے، توانائی بچانے کے لیے سختی کے ساتھ دکانیں شام چھ بجے بند کروائیں، بنگلا دیش میں بھی ان دنوں انرجی کا بحران ہے وہاں تو یہاں تک پابند کیا گیا ہے کہ لوگ اپنا ذاتی جنریٹر بھی نہیں چلاسکتے

زبیر طفیل

اکرام سہگل
اکرام سہگل

معیشت کا بنیادی اصول معیشت کوآزاد رکھاجائے، آزاد معیشت سے مراد ہر کاروبار پر سے ٹیکس کا بوجھ کم کردیں، ایک طرف آپ کی معیشت اوپر جارہی ہے اور دوسری طرف دھنس رہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں کاروبار میں انڈسٹری کو آزادی نہیں ہے۔ جو کرنا چاہیے وہ کرتے نہیں ہیں، ان اشیا پرٹیکس لگایا جاتا ہے جس کا اثر سب پر پڑتا ہے اور مہنگائی بڑھتی ہے، ایسی اشیا پر ٹیکس لگائیں جو ضروری نہیں ہیں، جیسے اگر کوئی شخص ایک روپیہ کا ٹک ٹاک استعمال کرتا ہے تو ایک روپیہ حکومت کو بھی ٹیکس دے۔ یہاں ڈالر کے بحران کا سبب افغانستان ہے ان کی معیشت صرف ڈالر پر چلتی ہے اوروہ ڈالر ہمارے پاس سے جارہے ہیں۔ منی چینجر ہمارے علاوہ کسی ملک میں نہیں ہیں حکومت کو اسے فوری بند کرنا چاہیے

اکرام سہگل

شبیہ اکرام
شبیہ اکرام

ورلڈاکنامک فورم بہت بڑا پلیٹ فارم ہے،جہاں امیرجمع ہوکر غریب اور غربت کی گفتگو کرتے ہیں،فورم میں شریک ہونے والے لوگ کاروباری نقطہ نگاہ کے ساتھ جاتے ہیں، لیکن ہم ابھی تک وہ ویژن نہیں رکھتے۔ پاکستان کی معیشت سکڑ رہی ہے اسے ٹھیک کرنے کے لیے ہمیں اچھے موقع تلاش کرنے چاہیے، سیب 83 فیصد انار 60 فیصد خوبانی 94فیصد، انگور 90 فیصد، کھجور 50 فیصد اور بادام 90 فیصد بلوچستان سے آتا ہے، لیکن ہم میں سے کوئی بھی صوبہ بلوچستان میں کاروبار کرنے کی کوشش نہیں کرتا،سونے کا بہت بڑا ذخیرہ بلوچستان میں ہے ہمیں تو کوئی مسئلہ ہونا ہی نہیں چاہے

شبیہ اکرام

پاتھ فائنڈر گروپ کے کانفرنس روم میں "ورلڈ اکنامک فورم اور پاکستان" کے موضوع پر منعقدہ جنگ فورم کی رپورٹ

ورلڈ اکنامی فورم پچھلے پچاس سال سے قائم ہے،لیکن پچھلے 30سال سے سرگرم ہے، کہا جاتا ہےکہ یہ بین الاقوامی سطح کاایسا کاروباری اجتماع ہے،جہاں عالمی مسائل پر گفتگو ہوتی ہے، مستقبل کے لائحہ عمل پر غورہوتا ہے، تجاویز سامنے آتی ہیں سفارشات تیار ہوتی ہیں لہذا اگر اسے آسان الفاظ میں مستقبلیات کا فورم کہا جائے تو بہتر ہوگا۔آج کے فورم میں ورلڈ اکنامی فورم اورپاکستان کے خراب معاشی حالات، ڈیفالٹ کے خدشات اور آئی ایم ایف سے معاہدے پر بھی گفتگو کریں گے۔

پاکستان کا معاشی مستقبل کیا ہے، یوکرین کی جنگ سے ہم پر کیا اثرات پڑرہے ہیں دنیا کساد بازاری کاشکار ہے تو اس کے نتائج ہم پرکیا ہیں اور ہم اس سے کیسے بچ سکتے ہیں، پاکستان کوموسمیاتی تبدیلی کا بھی مسئلہ درپیش ہے جس کے خوف ناک نتائج بھگت رہے ہیں، یہ مسئلہ وہاں بھی زیربحث آیا ہوگا، اس کا بھی جائزہ لیں گے،خوراک کا بحران سنگین مسئلہ بن رہا ہےاس کا وہاں کیسے جائزہ لیا گیا ،معاشی بحران اور موسمیاتی تبدیلی سے پاکستان میں غربت بڑھے گی پھر ہمارے علاقائی تنازعات بھی معیشت پر اثر ڈالتے ہیں، پاکستان میں مہنگائی ریکارڈ سطح پر ہے، ان تمام سوالوں کے ہم اپنےشرکا سے جواب حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔ 

ہم اس موقع پران سے یہ جاننے کی بھی کوشش کریں گے وہ کوئی ایسا روڈ میپ بتائیں جس سے پاکستان معاشی بحران سے نکلنے میں کامیاب ہوجائے۔اس موضوع پرہمارے ساتھ شریک گفتگو ہیں جناب اکرام سہگل (چیئرمین، پاتھ فائنڈرگروپ پاکستان/بانی رکن ورلڈاکنامک فورم)، شبیہ اکرام(صدر،سی ای او کلب،کراچی/سابق نائب صدر،امریکن بزنس کونسل) اور زبیرطفیل(سابق صدر،ایف پی سی سی آئی)۔جنگ فورم کی تفصیلی رپورٹ آپ کے پیش خدمت ہے۔

جنگ: ورلڈ اکنامی فورم کیا ہے اور اس کے اب تک کیا نتائج نکلے ہیں

اکرام سہگل: ورلڈ اکنامی فورم اس لحاظ سے منفرد ہے جہاں دنیا بھر سے ہرطبقے کے لیڈر شرکت کرتے ہیں، کم وبیش سو کے قریب ریاستوں کے سربراہ شریک ہوتے ہیں۔ یہاں جو بھی گفتگو معیشت سے متعلق ہوتی ہےاس کا تعلق عالمی سیاست سے ہوتا ہے۔ بین الاقومی سیاست میں سیاست اور معیشت کے درمیان کوئی فرق نہیں ہوتا،دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ یہ بہت بڑا پلیٹ فارم ہے، فورم میں اقوام متحدہ کے زیر انتظام ہر عالمی ادارہ موجو د ہوتا ہے، صنعتی شعبے کے مرکزی عالمی لیڈر شرکت کرتے ہیں، مثلاً فورڈ کا سربراہ، نیسلے کا سربراہ کمپنی کانمائندہ بن کر شریک ہوتا ہے وہاں مختلف شعبوں کے سربراہان کی شرکا ریاستوں کے سربراہوں سے ملاقاتیں بھی ہوتی ہے،این جی اوزکی کثیر تعداد شریک ہوتی ہے، تعلیمی اداروں کے سربراہان جیسے ہاورورڈ، آکسفورڈ سمیت عالمی سطح کےنامور ادارے کے سربراہان آتے ہیں، گفتگو کے مختلف سیشن ہوتے ہیں، ملاقاتوں کے سیشن میں تعلیم،انرجی، ڈیجیٹل دنیا،ماحولیات، ثقافت، منی لانڈرنگ ،کرپشن وغیرہ اس پلیٹ فارم سے ہر شعبے میں گفتگو ہورہی ہوتی ہے۔ 

اس فورم کو صنعت،حکومت، کاروباری لوگوں نے کیپیٹلائزڈ کرنےکے لیے اطراف میں شوروم اور اسٹال بنالیے ہیں، انڈیا کافی عرصے سے یہ کررہا ہے، وہاںآپ کو انڈیا کےصف اول کے کاروباری افراد مل جاتےہیں، اپنی کسی پروڈکٹ کی مارکیٹنگ کرنی ہے تویہ دنیا کی سب سے بہترجگہ ہے۔ سعودیہ نے ہوٹل پنوراما کے باہرایک چھوٹا سا گلاس ہاوس بنالیا،سعودی ٹورازم کے لیے انہوں نے اس کےلیے2ملین ڈالر ادا کیے وہ پانچ سال کےلیے دس ملین ڈالر دے کر یہ جگہ رکھیں گے اور جب بڑی کمپنیوں کے سربراہ سعودی گلاس ہاوس میں جاکر کافی پئیں گے، پھر اس ملک کی با ت کریں گےجب انہیں یہ معلوم ہوگا یہاں تو سب نے حجاب نہیں پہنا ہوا تو ان کی سوچ تبدیل ہوتی ہے۔انڈیا نےوہاں جگہ لے کر بالی وڈ نائٹ شروع کیا ہے، اس سال موسم بہت سرد تھا، لیکن بالی وڈ نائٹ میں شریک ہونے کے لیے ایک لمبی قطار تھی۔ ورلڈ اکنامک فورم ایک نیٹ ورک ہے، ہمارے لوگ وہاں جاکر دیگر بڑی کمپنیوں کے نامور شخصیات سے ملاقات کرتے ہیں اور اپنی پروڈکٹ کا بتاتے ہیں۔ہماری ایک پروڈکٹ آسان موبائل اکاوئنٹ ہے اسے ڈیجیٹل فنانس پروڈکٹ کےلیے عالمی بینک نے شروع کیا تھا۔

آسان موبائل اکاوئنٹ دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے اور 2023 میں ہم پہلے نمبر پر ہیں ، اس سے پہلے دو دوسرے ملک تھے۔ہمارے پاس سات ملین اکاوئنٹ ہیں۔ایک عام شخص جو بینک میں اپنا اکاوئنٹ نہیں کھول سکتا وہ چند منٹ میں یہ سہولت حاصل کرلیتا ہے۔ہمارے دو لوگ ابھی سعودی عرب میں ہیں ان سےلوگوں نےکہا ہے کہ آپ ہمارے ساتھ اس پر سائن کریں۔ یہ بتانے کا مقصدیہ ہے کہ ہمیں اپنی چیزیں بہتراہم مقاما ت پردکھانا اور بتانا چاہیے، کیوں کہ ابھی دنیاکے سامنے ہمارا تشخص اچھا نہیں ہے۔کل کے اخبارکا مطالعہ کریں تو اس کےمطابق عسکری بینک نے ریکارڈ منافع ڈیکلئیرڈ کیا ہے، تو ایک طرف آپ کی معیشت اوپر جارہی ہے اور دوسری طرف دھنس رہی ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں کاروبار میں انڈسٹری کو آزادی نہیں ہے۔

جو کرنا چاہیے وہ کرتے نہیں ہیں، ان اشیا پرٹیکس لگایا جاتا ہے جس کا اثر سب پڑتا ہےاورمہنگائی بڑھتی ہے، ایسی اشیا پر ٹیکس لگائیں جو ضروری نہیں ہیں، جیسےاگر کوئی شخص ایک روپیہ کا ٹک ٹاک استعمال کرتا ہے تو ایک روپیہ حکومت کو بھی ٹیکس دے۔ یہاں ڈالر کے بحران کا سبب افغانستان ہے ان کی معیشت صرف ڈالر پر چلتی ہے اوروہ ڈالر ہمارے پاس سے جارہے ہیں۔منی چینجر ہمارے علاوہ کسی ملک میں نہیں ہیں حکومت کو اسے فوری بند کرنا چاہیے۔منی چینجرکوبتادیا جائے کہ اگرآپ کی سو شاخیں ہیں تو اسے فوری دس تک محدود کریں،اور اگر ڈالر کی قدرمزید اضافہ ہوا ہم آپ کے کاروبار کو مزید محدود کریں گے پھر دیکھتے ہیں ہمارے یہاں ڈالر کی کیسے قلت ہوتی ہے، سب آپ کو بلیک میل کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ بینک بھی ساز باز کررہے ہیں ،آپ کی ایل سیز نہیں کھول رہے حالانکہ ان کے پاس پیسے موجود ہیں۔ بینکوں کے اس اقدام سے سے بےروزگاری بہت زیادہ بڑھ جائے گی۔

جنگ: اکنامک فورم میں وزیرخارجہ بلاول بھٹو بھی گئے تھے،آپ نے پاکستان کے حوالے سے کیا مشاہدہ کیا؟

شبیہ اکرام: ورلڈاکنامک فورم بہت بڑا پلیٹ فارم ہے،جہاں امیر جمع ہوکر غریب اور غربت کی گفتگو کرتے ہیں، ہمارے یہاں اکثر لوگ اس سے متعلق یہی خیال ہے۔ حالانکہ یہ وہ مقام ہے جہاں سے پاکستان کے سافٹ تشخص کواجاگر کرنا چاہیے۔ مجھے وہاں بہت سے دوست ملے جو کہہ رہے تھے ہمارا بہت خرچہ ہوا ہے تو کیاآپ اس کے بعد دوبارہ آئیں گے، میں نے کہا جی میں دوبارہ آوں گا۔میں نے کوئی بزنس نہیں لیا لیکن اگر میں ان پاکستانیوں کے لیے کچھ ملین ڈالر کی سرمایہ کاری لے آوں جو وہاں مالی دشواری کے سبب نہیں جاسکے تو یہ بھی ملک کی بڑی خدمت ہوگی۔ جب آپ کسی جگہ جاتے ہیں تو بہت سی نئی چیزیں دیکھنے اور سیکھنے کو ملتی ہیں۔ 

دنیا ٹیکنالوجی میں کہاں جارہی ہے،جو لوگ وہاں آپ سے پہلی بارملتے ہیں کل وہ آپ کے کاروباری شراکت داربن سکتے ہیں۔ اکرام صاحب اکنامک فورم لے کرجانے کا کام عرصہ دراز سے کررہے ہیں وہ پاکستانیوں کی آسانی کےلیے کئی چیزیں پہلے سے تیار رکھتے ہیں دیکھیں ان میں یہ ہمت کب تک ہے۔ہمارے ہمسائے انڈیا کا اسٹال تھا ان کی ریاست مہاراشٹر اور تامل کاعلیحدہ پویلین تھا، اس کے علاوہ ان کی تین چار بڑی آئی ٹی کمپنیاں بھی موجود تھیں۔ فورم میں شریک ہونے والے لوگ کاروباری نقطہ نگاہ کے ساتھ جاتے ہیں، لیکن ہم ابھی تک وہ ویژن نہیں رکھتے۔

پاکستان کی معیشت سکڑ رہی ہے اسے ٹھیک کرنے کے لیے ہمیں اچھے موقع تلاش کرنے چاہیے۔ موجودہ بحرانی کیفیت میں آپ کو ایک مثبت بات بتانا چاہوں گا، دنیا ماضی میں جب بھی بحران کا شکار ہوئی ہے تو کمیوڈیٹیز کی قیمتیں کم ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔ آج کل کوویڈ سے نکلنے کے بعد اور یوکرین روس جنگ سے دنیا پھر بحرانی کیفیت میں ہے ۔تو میرا خیال ہے ان حالات میں کمیوڈیٹیز کی قیمتیں 30 سے چالیس فیصد کم ہوں گی، دوسری طرف ہم 80 بلین ڈالر تک کی امپورٹ کرتے ہیں جس میں پٹرولیم مصنوعات اور ایل این جی کی مد میں 30 بلین ڈالرہے، اور اسی طرح اور دیگر اشیا ہیں، تو امپورٹ کا حجم اتنا رہنے کے باوجود قیمتیں کم ہونے سے ہماری امپورٹ بل 60بلین ڈالر تک ہونے کا امکان ہے۔ ہماری ایکسپورٹ بہت بیسک ہے اس پر اتنا اثر نہیں پڑے گا۔

ہمارے لیے یہ بحرا ن فائدہ مند ہوگا برا اثر مغربی دنیا پر پڑےگا۔ غیرملکی ریمی ٹینس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ اگلے دس سے بیس سالوں میں آنا بند ہوجائیں گے، کیوں کہ وہاں آباد تیسری نسل یہاں آباد اپنے لوگوں کو پیسے نہیں بھیجے گی، کیوں کہ ابھی غیرملک میں آباد کسی شخص کے والدین زندہ ہیں یا بہن بھائی جو اس کے زیرکفالت ہیں اگلے چند سالوں میں اس کی ذمہ داری نہیں رہے گی تو اس کا پیسے بھیجنے کاتعلق بھی ختم ہوجائےگا۔ سیب 83 فیصد انار 60فیصد خوبانی 94فیصد، انگور 90فیصد، کھجور 50 فیصد اور بادام 90فیصد بلوچستان سے آتا ہے،لیکن ہم میں سے کوئی بھی صوبہ بلوچستان میں کاروبار کرنے کی کوشش نہیں کرتا،سونے کا بہت بڑا ذخیرہ بلوچستان میں ہے ہمیں تو کوئی مسئلہ ہونا ہی نہیں چاہے۔

جنگ: اکنامک فورم اس حوالے سے کتنا مددگار ہوسکتا تھا جس کا فائدہ ہم نہیں اٹھا سکے؟

شبیہ اکرام: فائدہ مند ہوسکتا تھا لیکن ہم فائدہ اٹھا نہیں سکے، بلاول بھٹو وہاں آئے تھے لیکن ہماری ان سے ملاقات نہیں ہوسکی، وہ ہمارے منعقد پروگرام میں وہ شریک نہیں ہوئے تھے جس کی وجہ ان کی مصروفیات رہی ہوں گی۔ہم نے ایک ریکوڈک کی ڈیل کی تھی،اسی طرح کے500 لوگ اس فورم میں موجود تھے۔ تو ہمارے لوگ وہاں شامل ہوکر ان سے ملاقات کرتے اپنا تعارف کراتے انہیں پاکستان دعوت دیتے ۔اپنے ساتھ کام کی دعوت دیتے ان سے ڈیلیں کرتے تو آپ کے بہت سے مسئلے حل ہوسکتے تھے۔ یہاں سے جو لوگ وہاں جاتے ہیں ان کا مقصد کیا ہوتا ہے مجھے اس پر کچھ تحفظات ہیں۔

جنگ: اکنامک فورم کو اگرپاکستان کے مفاد کے حوالے سے دیکھیں ،پاکستان کے مسائل ،تنازعات میں یہ فورم کتنا مددگار ہوسکتا ہے؟

زبیرطفیل: میں ڈیووس پہلی مرتبہ گیا ہوں،یہ وہ مقام ہے جہاں پاکستان کو اچھے انداز میں پیش کیا جاسکتا ہے،کاروباری نیٹ ورکنگ ہوسکتی ہے، لیکن ہماری کاروباری برادری نے اس جانب کوئی خاص توجہ نہیں دی، ڈیووس کانفرنس میں پاکستان کی طرف سے اکرام سہگل صاحب ہی ہرطرح کے بوجھ کے ساتھ نمائندگی کرتے ہیں۔ اس طرح کے کاموں میں پاکستان کے دیگر کاروباری لوگوں کو معاونت کرنی چاہیے۔

فورم میں انڈیا اور اس کے چند صوبوں کے اسٹال موجود تھے،ٹاٹا کمپنی نے سڑک کے ایک طرف کافی اور چائے کااسٹال لگارکھا تھا جو آئے وہ پیئے ،وہ اس طرح اپنی پبلسٹی مہم چلارہے تھے۔ وہاں اس طرح بڑی کمپنیوں کے اعلیٰ شخصیات سے باآسانی ملاقات ہوجاتی ہے۔میرے خیال میں پاکستان کو بھی اپنا اسٹال لگانا چاہیے تاکہ اتنے بڑے فورم میں ہماری بھی نمائندگی ہو۔

جنگ: پاکستان کے بڑے سیکٹر اگر ٹیکسٹائل ہی لے لیں تو اپٹما،یا ٹڈاپ یہ لو گ وہاں کیوں نہیں جاتے؟

زبیر طفیل: ان کو وہاں جانا چاہیے ،لیکن یہ جاتے نہیں ہیں، یہ دنیا سے کاروباری نیٹ ورکنگ بنانے کے لیے بہترین جگہ ہے۔جو سالہا سال سے جنوری میں ہورہی ہے۔پاکستان کی کاروباری برادری کو چاہیے کو وہ وہاں جائیں انہیں سمجھیں اور فائدہ اٹھائیں۔ ہمارے حالیہ وزٹ میں اکرام صاحب نے بریک فاسٹ کا اہتمام کیا تھا جس میں چالیس سے پچاس افراد آئے تھے ان میں پاکستانی اور غیرملکی دونوں شریک ہوئے ہماری ملاقاتیں ہوئیں۔ یہاں انویسٹمنٹ بینکر بھی آئے تھے تو یہ ہمارا کام ہے کہ اس نیٹ ورکنگ سے کیسے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔

جنگ: ٹڈاپ کی ذمہ داریوں میں بیرون ملک نمائش میں حصہ لینا ہے تو اتنے اہم فورم میںان کی غیرحاضری کیوں ہے؟

زبیرطفیل: میری خواہش ہوگی کہ اگلے سال ٹڈاپ اس فورم میں شرکت کرے،یہ ان کی ذمہ داری ہے،پاکستان کا بہتر تعارف کرانے کےلیے اہم مقام ہے۔وہاں پاکستان کی معاشی صلاحیت کوبہتر پیش کرسکتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہم ابھی مشکل میں ہیں، اس سے نکلنا ہوگا۔ ابھی خام مال کی بھی کسی انڈسٹری کی ایل سی نہیں کھل رہی،بڑی سے بڑی کمپنی کے پاس سے دوسے ڈھائی ماہ کا خام مال ہوتا ہے ، دوماہ تو گزرگئے باقی کے چند دن رہ گئے ہیں،99فیصد کمپنیوں کا خام مال فروری میں ختم ہوجائے گا اگر فیکٹریاں بند ہوگئیں تو بڑی تعداد میں لوگ بے روزگار ہوجائیں گے، مہنگائی بلندترین ریکارڈ سطح پر ہے۔

ان حالات میں میری گورنراسٹیٹ بینک سے تین سے چار بار ملاقات ہوئی ہے،ان کا کہناتھا کہ 80بلین ڈالر کی امپورٹ کو کم کردیں،ہم نے کہا اس پر بیٹھ کر بات کرلیتے ہیں یہ ہوجائے گا آپ 15بلین ڈالر کی امپورٹ کم کرناچاہتے ہیں وہ ہوجائے گی،لیکن وہ اس پر بھی بیٹھ ہی نہیں رہے۔ ابھی60بلین ڈالر توآرہے ہیں، فارن ریمی ٹینس 30 بلین ڈالراور ایکسپورٹ سے بھی 30بلین ڈالر آرہے ہیں،آج کے حساب سے شارٹ فال 15بلین ڈالر کا ہے تو اسے غیر ضروری اشیا پر پابندی سے کم کیا جاسکتا ہے، انڈسٹری کو چلنے دیں،ابھی توانائی پر 30بلین ڈالر کے قریب خرچ ہورہے ہیں اس کا جائزہ لینا چاہیے، توانائی بچانے کےلیے سختی کے ساتھ دکانیں شام چھ کے بعد بند کروائیں،کیوں کہ آپ کی زیادہ بجلی فرنس آئل سے بنتی ہے تو اس کا بل اس طرح کم ہوگا، حکومت ڈرتی ہے کہ دکان دار ہڑتال کرے گا تو کرنے دو آپ اپنے احکامات پر سختی سے عمل درآمد کرائیں شام چھ کے بعد اگر دکان کھلے تو بند کرو اور نہ مانے تو پھر سیل کرو۔ 

بنگلا دیش میں بھی ان دنوں انرجی کا بحران ہے وہاں تو یہاں تک پابند کیا گیا ہے کہ لوگ اپنا ذاتی جنریٹر بھی نہیں چلاسکتے اگر کسی گھر یا دکان کے باہر جنریٹر موجود ہے اسے اٹھالیا جائے۔ ہمیں بھی اسی طرح سختی کرنی پڑے گی۔توانائی کی بچت کریں اور ایکسپورٹ کو بڑھانا ہوگا،پچھلے پانچ سات سال سے 25بلین ڈالر کے گرد ہماری ایکسپورٹ گھومتی تھی جو 30بلین ڈالرپر پہنچی ہے،ہماری صنعت میں ایکسپورٹ بڑھانے کی بڑی گنجائش ہےلیکن خام مال پر پابندی لگادی ہے اور اگر ایسا مزید رہا تو لوگ مجبور ہوکر بذریعہ اسمگلنگ مال لینا شروع کردیں گے، پاکستان میں اسمگلنگ کا چینل افغانستان اور ایران کے راستےچلتا ہے،کوئی پبلک لمیٹڈ کمپنی تو نہیں کرسکے گی لیکن میڈیم سائز کمپنیاں مال لینے کے لیے سارے راستے اختیار کریں گے، حکومت کچھ نہیں کررہی وہ تو ایسے بیٹھے ہیں کہ جیسے ان کے پاس 50بلین ڈالر کا ریزرو ہوگیا ہے۔

رواں برس مارچ کا مہینہ خطرناک ہوگا بے تحاشا لوگوں کی ملازمتیں ختم ہوں گی،پاکستان بھر کے ہزاروں لوگ سڑکوں پر آجائیں گے اس وقت حالات کو قابو کرنا آج کے مقابلے میں بہت مشکل ہوگا۔ حکومت کو چاہیے وہ ہم سے پچھلے سال کے مطابق 70فیصد خام مال کی ایل سی کھولنے دیں ان کے پندرہ بلین ڈالر کا شارٹ فال پورا ہوجائے گا لیکن ان نیت نہیں ہے۔ گورنراسٹیٹ بینک نے آخری ملاقات میں کہا ہے آئی ایم ایف سےڈیل ہوتے ہی آپ کی ایل سی کھلنا شروع ہوجائے گی۔ صورت حال مجموعی طور پر مایوس کن ہے۔

جنگ: پاکستان کوموجودہ جن چیلنجزکاسامنا ہے اس پر فورم میں کسی سطح پر کوئی گفتگو ہوئی ؟

اکرام سہگل: معیشت کا بنیادی اصول معیشت کوآزاد رکھاجائے،آزاد معیشت سےمرادہرکاروبار پرسے ٹیکس کا بوجھ کم کردیں،آپ کے 85فیصد ٹیکس کارپوریٹ یا امپورٹ سیکٹر سے آتے ہیں اور پندرہ فیصدٹیکس افراد سے آتا ہے، 85 فیصد ایف بی آرکا ادارہ 15فیصد سے ٹیکس نکالنے میں مصروف ہے۔اگر آپ ٹیکس دینے والے کسی بھی بزنس مین سے کہہ دیں کہ اگر آپ پندرہ فیصد مزید ٹیکس دے دیں تو پھرآپ آزاد ہیں پھر آپ کو کوئی کچھ نہیں کہے گا۔ آپ ٹیکس میں اتنا اضافہ دے دیں پھر ہم آپ سے نہیں پوچھیں گے۔ آج پاکستان گندم درآمد کررہا ہے حالانکہ پاکستان گندم میں زرعی خودکفیل ملک ہے تو پھر یہ گندم جاتا کہاں ہے۔

پاکستان کا پانچ ملین ٹن گندم پہلے یہاں کرش ہوتا تھا،افغانستان میں فائن آٹا کھایا جاتا ہے، لیکن وہ یہ کہتے ہیں کہ آپ گندم بھیجیں کیوں کہ ہماری عورتیں چکیوں میں کام کرتی ہیں تو انہیں روزگار مل جاتا ہے، تو جب آپ کا پانچ ملین ٹن گندم یہاں سے چلاجائے گا تو آٹےکی قیمت بڑھے گی،اگلی بات یہ کہ فیکٹری کی قیمت اور مارکیٹ کی قیمت میں بڑا فرق کیوں آرہا ہے،اس پر کون قابو پائے گاتو جب تک آپ کے پاس لوکل باڈیز نہیں ہوں گے جن کویہ معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے تندور یا اسٹور میں آٹا ہے یانہیں کیوں کہ آپ کے اسٹاک میں آٹا کےمناسب ذخائر ہونے چاہیے۔

کسی بھی ملک میں جائیں وہ بنیادی چیزوں کے زیادہ اسٹاک محفوظ رکھتے ہیں،قیمتوں کو قابو میں رکھنے کےلیے محفوظ اسٹاک کو مارکیٹ میں بھیجا جاتا ہے۔ تو وہ تمام بنیادی اشیا جس کی معمولی کمی سے افواہیں پیدا ہوسکتی ہیں آپ کے پاس اس کے زیادہ اسٹاک ہونا چاہیے۔ ڈیووس میں سعودی گروپ نے ہمیں ریاض میں ہونے والی بڑی کانفرنس میں مدعو کیا ۔ہمارے دو لوگ پہنچے تو کانفرنس پہنچنے پر ہمارے سفارتخانے کے لوگ ان کی وہاں موجودگی پرحیران تھے کے آپ کیسے یہا ں پہنچ گئے ،کیوں کہ ان پہنچنے والوں نے تین معاہدوں پر دستخط کیے تو آپ معیشت کو آزاد کریں۔اگر موازنہ فرد کی بنیاد پر کیا جائے تو ہمارا بزنس مین بھارتی سے بہتر ہے لیکن تعاون کرنے پر بھارت کی حکومت ہم سے بہتر ہے۔ ہمیں اپنے نوجوانوں پر اعتماد کرنا چاہیے۔

جنگ: اس مرتبہ ورلڈ اکنامک فورم کی تھیم کیا تھی؟

اکرام سہگل: ڈیجیٹل پر تھا،جیسےڈیجیٹل ڈیوائس ،ڈیجیٹل فنانشل سلوشن، فورتھ انڈسٹری ریوی لوشن آگیا ہے،آپ منصوبہ بندی کریں کہ پانچویں کس طرح آئے گی، اس میں آرٹی فیشل انٹیلیجنس آجائے گا،اس میں نئی بہت ساری چیزیں آجائیں گی جو ابھی آپ کے یہاں نہیں ہے۔ پرانے والے ٹیکنو کریٹس نہ استعمال کریں آپ ایک دیوار بنائیں جس میں ان ٹیکنو کریٹس کی تصاویر لگادیں کہ یہ مشرف حکومت میں یہ پی پی حکومت میں یہ نواز شریف دورحکومت میں اور یہ پی ٹی آئی حکومت میں ٹیکنوکریٹس رہے۔

آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ یہ چند چہرے ہی ہماری معیشت کو برباد کرتے رہے ہیں،یہ کرتے کیا ہیں میں ایک مثال بتاتا ہوں، چھ سو ملین ڈالر کا ایک منصوبہ تھا جس میں 70فیصد سرمایہ باہر سے آئے گا،ہم دوہزار ڈالر کا لون تو ادا نہیں کرسکتے تو پھر یہ کیسے، لیکن کیوں کہ ایک ٹیکنوکریٹ اس منصوبے کے پیچھے ہے توپھر کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ اگر آپ نے اپنی معیشت کو چلانا ہے،تو وہ کام کاروباری لوگ کریں گےگیس آتی ہے، فرٹیلائزر بنتا ہے اور فرٹیلائزر کی طلب ہے تو اس میں ٹیکنوکریٹ کا کیا کام ہے۔ ہم توقع رکھتے ہیں ٹیکنو کریٹ ہماری معیشت چلائے گا۔

جنگ: اکرام صاحب آپ سالہا سال سے فورم میں شرکت کررہے ہیں تو وہاں سے آنے کے بعد جو مشاہدہ اور تجربات اور رابطے ہوتے ہیں تو اس سے متعلق حکومتوں کو کوئی سفارشات یا تجاویز دستاویزی طور پر دیتے ہیں؟

اکرام سہگل: ہم سابق صدر پرویزمشرف سابق وزیراعظم شوکت عزیزکووہاں لے کر گئے انہوں نے وہاں ہمارا شکریہ اداکیا تھا،سابق وزراعظم یوسف رضا گیلانی ،نوازشریف ،شاہد خاقان عباسی،عمران خان یہ سب ہمارے ساتھ وہاں گئے ہیں۔ وہاں بریک فاسٹ ہوا وہاں بڑی آوبھگت بھی ہوئی انہوں نے شکریہ بھی اداکیا لیکن پھرکسی نے واپس آکر اس پر ایک بات نہیں کی۔ لیکن دو لوگوں نے اس سے متعلق پوچھا تھا شاہد خاقان عباسی صاحب نے بارباراس کے متعلق جاننے کی کوشش کی تھی اورمحترمہ شیریں رحمن نے بھی اس کے متعلق کافی دلچسپی سے پوچھا، سابق وزیراعظم عمران خان ہمارے دوست ہیں سیکورٹی کے حوالے سے وہ آج بھی ہم سے رابطہ کرتے ہیں، لیکن انہوں نے کبھی بھی ہمارا عوام کے سامنے شکریہ ادا نہیں کیا بلکہ ابھی ہمارے ساتھ وزیراعلیٰ گلگت بلتستان سرمایہ کاری کی تلاش میں جارہے تھے انہوں نے اسے بھی روک دیا۔

زبیرطفیل: فورم میں شرکت کا مجھے اچھا تجربہ ہوا میری کوشش ہے کہ آئندہ سال کچھ کمپنیوں کے سی اوز کو بھی ہمراہ لے کرجائوں گاتاکہ ہم وہاں اپنے ملک کی اچھے طریقے سے نمائندگی کرسکیں۔ نیٹ ورکنگ کےلیے وہ بہترین جگہ ہے وہاں سے ہم پاکستان کےلیے بڑی سرمایہ کاری لاسکتے ہیں۔

شبیہ اکرام: ہمارے کاروباری دوست ہر چیز کو نفع نقصان سے نہ پرکھیں ،آپ وہاں جب باقاعدگی سے جاتے ہیں تو لوگ پھر متوجہ ہوتے ہیں اور آپ سے رجوع کرتے ہیں۔

جنگ: کاروباری حضرات کی فیدریشن ہے چیمبر ہے اس کے باوجود وہ کو کیوں اتنے عرصے بعد بھی اس طرف توجہ نہیں دے سکے؟

شبیہ اکرام: ہم انفرادی طور پر اچھے ہیں لیکن اجتماعی طور پر ہمیشہ سوچنا پڑے گا۔

زبیر طفیل: میری ڈیووس سے واپسی کے بعداپٹما کے سرگرم رہنما گوہراعجاز سے اس پر تفصیلی بات ہوئی تھی وہ متاثر ہوئے اگلے سال وہ بھرپور طریقے سے فورم میں شرکت کےلیے تیار ہیں۔

اکرام سہگل: کسی بھی نجی فنکشن میں ورلڈ اکنامی فورم کا فرد نہیں جاتا، ہمارے فنکشن میں ان کا مینجنگ ڈائریکٹر بریک فاسٹ میں آیا اور اس نے آکر ہمارے کام کی تعریف کی اوراس نے ہمیں لائٹ ہاوس ملک تسلیم کیا، لائٹ ہاوس سے مراد ڈیجیٹل دنیا میں کوئی جدید نئی چیز دنیا کے سامنے پیش کرنے والے ،ان شااللہ اس سال 2023میں ہم لائٹ ہاوس ملک ہیں جو ہمارے نوجوانوں نے بنایا۔

جنگ: ایک لفظ ہے پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ اور ہمیں اس کی ضرورت ہے ،اس کی اہمیت پر کچھ بات ہوئی ،کافی تنقید کے باوجود سندھ حکومت نےا نرجی، سڑکوں کی تعمیر اس پر بہت کام کیا جس کی تعریف ورلڈ بینک بھی کرتا ہے اور سندھ حکومت کو ایشیا میں تیسرے نمبر پر رکھا ہے ہمارے یہاں اس کا مزید اسکوپ ہے؟

اکرام سہگل: میں نے پچھلے سال سرمایہ کاری کے موضوع کی میزبانی کی تھی تو میں سندھ میں بہترکاروباری مواقع پر حیران ہوگیا تھا ،سندھ میں کراچی سے باہرزیادہ اچھے کاروباری موقع ہیں، اس پر پنجاب ،بلوچستان اور خیبرپختون خوا تینوں صوبوں کا سندھ سےکوئی موازنہ نہیں ہوسکتا، صوبہ سندھ کے پٹنے کی وجہ کچھ اور ہے،وہ منفی پروپیگنڈے کا شکار ہیں، صوبہ سندھ کے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ متحرک شخصیت ہیں، انہوں نے بہت کام کیا ہے وہ کسی بھی منصوبے کی تکمیل کی بھرپور کوشش کرتے ہیں، تھرکول بنانے میں بڑا کردار ہے۔ سندھ حکومت نے ہم سے کہا تھا کہ آپ ڈیووس میں ہماری نمائندگی کریں،اگلے سال سے وہ خود ڈیووس میں اپنا اسٹال لگانے کا کہہ رہے ہیں اور ساتھ ہی دیگر صوبوں کو بھی وہاں جانے کی ترغیب کا کہہ رہے ہیں۔ اس معاملے میں سندھ حکومت کا ویژن بالکل صاف ہے۔

جنگ: تھرکول ایک عرصے سے التوا کا شکار تھا،وفاق اس پر کوئی کام نہیں کررہا تھا سندھ حکومت نے قانون سازی کرکے اسے صوبے کی تحویل میں لیا اور آج1365میگاواٹ بجلی ہمارے نیشنل گرڈ میں جارہی ہے۔

شبیہ اکرام: ہمیں بحران سے نکلنے کے لیے سادگی اختیار کرنی پڑے گی،عوام پر مزید بوجھ ڈالنے سے پہلے تمام شعبوں کےسرکاری ملازمین کے سالانہ اثاثے ظاہر ہونا چاہیے۔ ان کی تمام مراعات بند کی جائیں ہمارے پاس اس کے علاوہ اب کوئی چارہ نہیں ہے۔

فورم کو اوپن کرتے ہیں

زاہد فاروق: کاروباری طبقہ معیشت کے اس مشکل ترین دور میں اپنے مزدورں اور کام کرنے والوں کے لیے کیا کررہا ہے؟

اکرام سہگل: ہم نے کورونا وبا میں جب سب بند تھا اپنا ایک ملازم نہیں نکالا، بلکہ انکریمنٹ دیا۔

زبیرطفیل: کورونا وبا میں ہماری ایک فیکٹری بند ہوگئی تھی لیکن ہم نے بھی کسی ملازم کو نہیں نکالا تھا اور انکریمنٹ بھی دیا تھا۔ بزنس مین میں بہت سارے اچھے لوگ موجود ہیں۔

سلمان: میں دو سال سے اکنامک فورم میں شرکت کررہا ہوں، ہرسال کچھ نیا دیکھنے کو ملتا ہے۔

جہانگیر جاوید: اکرام سہگل صاحب ایک طویل عرصے سے اکنامک فورم میں شریک ہورہے ہیں اس کا آپ کو کیا فائدہ ہوا؟

اکرام سہگل: میرے لیے فائدے اور خوشی کی بات یہ ہے کہ اتنے بڑے بین الاقوامی فورم میں اتنے سال سے پاکستان کی باقاعدگی سے نمائندگی ہورہی ہے۔