• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ثابت کرنا ہوگا نیب ترامیم بنیادی حقوق کے خلاف ہیں یا نہیں، سپریم کورٹ

اسلام آباد(نمائندہ جنگ)عدالت عظمیٰ میں ʼʼنیب ایکٹ میں ترامیم کے ایکٹ 2022 کیخلاف پی ٹی آئی کے سربراہ ، عمران خان کی جانب سے دائر آئینی درخواست کی سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے ہیں کہ نیب ترامیم کتنی ہی بری کیوں نہ لگیں؟ صرف یہ ثابت کرنا ہو گا کہ یہ بنیادی حقوق کیخلاف ہیں یانہیں،بھارتی قانون میں احتساب کاعمل بنیادی حقوق سے جوڑاگیا، کیا نیب ترامیم بارےبھارتی قانون کا حوالہ دینگے ؟چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجا زالاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل تین رکنی اسپیشل بینچ نے کیس کی سماعت کی تو وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان ایڈووکیٹ پیش ہوئے، چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ کیا نیب ترامیم سے متعلق بھارتی قانون کا حوالہ دیں گے؟ بھارتی قانون میں احتساب کے عمل کو بنیادی انسانی حقوق سے جوڑا گیا ہے، بھارت کے مطابق قانون کی بالادستی بھی بنیادی انسانی حقوق کے زمرہ میں آتے ہیں، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کیا بھارت کا نیب جیسا قانون ہے؟ کیا نیب جیسے قوانین جنوبی ایشیا کے کسی بھی ملک میں ہیں؟اگر نیب قانون اچھا ہے تو اس سے ملک کو کتنا فائدہ ہواہے؟ کیا نیب قانون سے حاصل ہونے والے فائدے پر کسی آزاد ادارے نے کوئی رپورٹ بنائی ہے؟ کیا نیب کی کارکردگی سے حاصل ہونے والے فائدے پر کوئی رپورٹ ہے؟ جس پر فاضل وکیل نے کہا کہ عدالت کے تمام سوالات کا جواب تحقیق کر کے دوں گا،چیف جسٹس نے کہا اگر سزا پر چھوٹ مل سکتی ہے تو کیا جرم کی شدت بھی کم کیا جا سکتی ہے؟جس پر فاضل وکیل نے کہا عمران خان کی حکومت نے نیب قانون میں خود بھی ترامیم کی تھیں،وہ خود بھی ان نیب ترامیم کے ایک حصے کے مصنف ہیں، کبھی یہ نہیں ہوا کہ ترامیم کرنے والا شخص خود بعد میں انہیں چیلنج کردے،انہوںنے کہاکہ پی ٹی آئی کے اراکین نے نیب ترامیم سے متعلق پارلیمنٹ میں بحث اور ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا تھا،انہوںنے سوال اٹھایا کہ عمران خان کیسے مفاد عامہ کے آرٹیکل 184 تھری کے تحت نیب ترامیم کوچیلنج کر سکتے ہیں؟ اگر عوامی مفاد تھا تو عمران خان نے نیب ترامیم پر پارلیمنٹ میں کوئی بل کیوں نہیں پیش کیا تھا؟عدالت قانونی نظائر کو دیکھے،انہوںنے کہاکہ عمران خان نے اپنی درخواست میں موقف اختیار کیا ہے کہ نیب ترامیم سے جرائم کا اثر ختم کیا گیا ہے ، نیب ترامیم کا ماضی سے اطلاق غلط ہے اور ثبوت کا بوجھ استغاثہ پر ڈالنے سے ملزمان بری ہوں گے، لیکن میں یہ ثابت کروں گا کہ نیب کی حالیہ ترامیم سے ایسا کچھ بھی نہیں ہواہے ، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ عدالت صرف یہ دیکھے گی کہ نیب ترامیم سے بنیادی حقوق کہاں متاثر ہوئے؟ نیب ترامیم کتنی ہی بری کیوں نہ لگیں؟ صرف یہ ثابت کرنا ہو گا کہ یہ بنیادی حقوق کیخلاف ہیں،جس پر فاضل وکیل نے کہاکہ نیب قانون میں دو بار ترامیم 2019، تین بار 2021 اور ایک بار 2022 میں ہوئی تھی،،بعد ازاں سماعت آج 23 فروری تک ملتوی کردی گئی۔

اہم خبریں سے مزید