اسلام آباد(جنگ نیوز/نمائندہ جنگ) الیکشن، ازخودنوٹس کیس میں 3 ججز معترض، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے تحفظات کا اظہار کیا کہ کیا دونوں اسمبلیاں آئین کے مطابق تحلیل ہوئیں۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ تحفظات نوٹ کرلئے،آئین کی خلاف ورزی برداشت نہیں، انتخابات وقت پر چاہتے ہیں، سنگین حالات میں وقت بڑھ سکتا ہے، جسٹس سید منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا اسمبلیاں کسی کی ڈکٹیشن پر ختم ہوسکتی ہیں، اگر آئین کے مطابق تحلیل نہیں ہوئیں تو بحالی سے موجودہ بحران ختم ہوسکتا ہے۔
نمائندہ جنگ کے مطابق عدالت عظمیٰ نے پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں میں عام انتخابات کے انعقاد کی تاریخ کے اجراء میں تاخیر کے تنازع سے متعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران وفاقی حکومت، الیکشن کمیشن، گورنر پنجاب اور گورنر خیبر پختونخوا کو ( بذریعہ پرنسپل سیکرٹریز)، دونوں صوبائی چیف سیکرٹریز، پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین، سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن کے صدر اور چاروں صوبوں کے چیف لاء افسران (ایڈووکیٹ جنرلز)، پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) اور پیپلز پارٹی کی قیادت کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے کیس کی سماعت آج بروز جمعہ تک ملتوی کردی۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دیئے ہیں کہ عدالت آئین کی خلاف ورزی برداشت نہیں کریگی، انتہائی سنگین حالات ہوں تو ہی انتخابات کا وقت بڑھ سکتا ہے، ہمیں آئین کو دیکھنا ہے کہ اس پر عملدرآمد ہورہا ہے یا نہیں؟
انہوں نے کہا کہ آئین اسمبلیوں کی تحلیل کے 90 دنوں کے اندر انتخابات کے انعقاد کا کہتا ہے، ہم چاہتے ہیں کہ انتخابات وقت پر ہوں، زیر غور مقدمہ میں انتخابات کا ایشو وضاحت طلب ہے، ہمارے سامنے 3 معاملات ہیں، صدر مملکت نے آئین کے ’آرٹیکل 57 کے تحت انتخابات کا اعلان کیا ہے، دیکھنا ہے اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد الیکشن کی تاریخ دینے کا اختیار کس کو ہے؟
چیف جسٹس نے ریمارکس دئے کہ آرٹیکل 224 کہتا ہے کہ90 روز میں انتخابات منعقد ہوں گے، لیکن وقت تیزی سے گزر رہا ہے، جسٹس جمال خان مندوخیل نے ازخود نوٹس لینے کے عمل پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کی رائے میں اس کیس میں لیا گیا ازخود نوٹس کیس نہیں بنتا، عدالت کے سامنے پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں کے اسپیکروں کی درخواستیں ہیں لیکن یہ ازخود نوٹس جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی پر مشتمل دو رکنی بنچ کے نوٹ پر لیا گیا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے سوال اٹھایا کہ کیا کسی صوبے کا وزیر اعلیٰ اپنے سیاسی رہنما کے کہنے پر اسمبلی تحلیل کرسکتا ہے؟ جبکہ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اگر اسمبلی کی تحلیل ہی غیرآئینی ثابت ہوجائے تو اسے دوبارہ بحال کرنے سے موجودہ بحران سے نکلا جاسکتا ہے۔
دوران سماعت عدالت نے جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس سید منصور علی شاہ کے سولات اور جسٹس جمال خان مندوخیل کے تحفظات کو بھی عدالتی کارروائی کا حصہ بناتے ہوئے قرار دیا کہ ان سوالات پر بھی جواب طلب کیا جائے گا۔
عدالت نے قرار دیا کہ کیس کی سماعت کرکے اس بات کا تعین کیا جائے گا کہ آئین کے تحت مختلف حالات میں کسی صوبائی اسمبلی کے تحلیل ہونے کے بعد انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے کی آئینی ذمہ داری اور اختیار کس کے پاس ہے؟
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس سید مظاہر علی کبر نقوی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمدع لی مظہر اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل نو رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔
فاضل چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ عدالت کو اس ازخود نوٹس میں تین معاملات کو سننا ہے، صدر پاکستان نے الیکشن کی تاریخ کا اعلان کیا ہے، عدالت کے پاس وقت کم ہے، الیکشن کے حوالے سے وقت گزرتا جارہا ہے۔
دوران سماعت درخواست گزار کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ہم صدر پاکستان سے متعلق چیزیں ریکارڈ پر لانا چاہتے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سیکشن 57 کے تحت صدر مملکت نے انتخابات کا اعلان کیا ہے، علی ظفر ایڈووکیٹ نے کہا کہ ہماری درخواست زیر التوا ہے انہوں نے اسے بھی اسی مقدمہ کے ساتھ سننے کی استدعا کی تو چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے سامنے 3 معاملات ہیں، دیکھنا ہے اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد الیکشن کی تاریخ دینے کا اختیار کس کو ہے؟۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے سامنے ہائی کورٹ کا 10 فروری کا آرڈر تھا، ہمارے سامنے بہت سے عوامل تھے، دوران سماعت اٹارنی جنرل نے کیس کی تیاری کے لئے مہلت دینے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ اتنے لوگوں کو نوٹس ہوگا تو کل کے لئے تیاری مشکل ہوپائے گی، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کل ہم صرف چند ضروری باتوں کی سماعت تک محدود رہیں گے، کیس کی تفصیلی سماعت آئندہ سوموار کو کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے سامنے بہت سے عوامل تھے جن کی بنیاد پر یہ از خود نوٹس لیا ہے، انہوں نے کہا کہ ہائی کورٹ میں لمبی کارروائی چل رہی ہے، وقت گزرتا جارہا ہے، جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ اس از خود نوٹس لئے جانے پر میرے کچھ تحفظات ہیں، ہمارے سامنے دو اسمبلیوں کے اسپیکروں کی درخواستیں موجود تھیں لیکن یہ ازخود نوٹس جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی پر مشتمل دو رکنی بنچ کے نوٹ پر لیا گیا ہے۔
دو رکنی بنچ کی جانب سے ازخود نوٹس لینے کی سفارش ’ملازمت سے متعلق ایک مقدمہ (سی سی پی او پنجاب کیس)‘ کی سماعت کے دوران کی گئی ہے، دو رکنی بنچ نے اس مقدمہ میں چیف الیکشن کمشنر کو بھی بلایا تھا جو کہ فریق مقدمہ ہی نہیں تھے، اور ان سے باقاعدہ جواب بھی نہیں مانگا گیا ہے؟
انہوں نے کہا کہ جس کیس میں ازخود نوٹس لیا گیا ہے وہ غیرمناسب تھا، ایک دن کیس سننے کے بعد چیف جسٹس کو انتخابات کے معاملے پر ازخود نوٹس لینے کے لئے نوٹ بھیج دیا گیا ہے، انہوں نے مزید کہا کہ سوشل میڈیا پر کچھ آڈیوز سامنے آئی ہیں، جن میں سے ایک میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر عابد زبیری کچھ ججوں کے حوالے سے بات کر رہے ہیں، اس لئے ان حالات میں میری رائے میں یہ کیس آئین کے آرٹیکل 184(3) کے زمرہ میں نہیں آتا۔
جس پر فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ جسٹس جمال خان مندوخیل نے جن خدشات کا اظہار کیا ہے، ان خدشات کو بھی حکم میں شامل کرکے ان پر جواب مانگا جائے گا، چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ازخود نوٹس بعد میں لیا ہے، پہلے دونوں اسمبلیوں کے اسپیکروں کی درخواستیں دائر ہوئی تھیں، جس پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی بھی اس بنچ کا حصہ تھے جس میں چیف الیکشن کمشنر کو بلایا گیا تھا، چیف جسٹس نے کہا کہ بہت سی وجوہات تھیں جن کی وجہ سے ازخود نوٹس لیا گیا ہے۔