میزبان: محمد اکرم خان
ایڈیٹر، جنگ فورم
رپورٹ : سلیم اللہ صدیقی
تصاویر: اسرائیل انصاری
شرکاء
خالد جاوید ایڈووکیٹ (سابق صدر/ سیکریٹری، سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن)
سردار اشرف خان (بزنس مین/ پولی ٹیکل اکنامسٹ)
ڈاکٹر اقدس افضل (پروگرام ڈائریکٹر، سوشل پالیسی اینڈ ڈیولپمنٹ، حبیب یونی ورسٹی، کراچی)
عنبر رحیم شمسی (ڈائریکٹر، سینٹر آف ایکسی لینس ان جرنل ازم، آئی بی اے کراچی)
خالد امین (چانسلر، انڈس یونی ورسٹی)
ان 75برسوں میں صرف ایک سیاسی جماعت پیپلز پارٹی کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ جب اسے موقع ملا تو اس نے اپنی آئینی مدت پوری کی پھر اس جمہوری حکومت نے الیکشن کروائےاور پرامن طریقے سے دوسری سول حکومت کو آئینی طریقے سے اقتدار منتقل کیا، میں خرابیوں کی ذمہ دارعدلیہ کو سمجھتا ہوں، جس میں وکیل جج سب شامل ہیں، سب سے پہلے اسے ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے یہاں انصاف نہیں ہورہا صرف فیصلے ہورہے ہیں یا کروائے جارہے ہیں یا کہیں اور سے لکھے ہوئے آرہے ہیں، ہمارے یہاں حکومتیں بنتی اور بگڑتی نہیں بلکہ بنائی اور بگاڑی جاتی ہیں جب تک یہ عمل رہے گا معاملات ٹھیک نہیں ہوں گے۔
خالد جاوید ایڈوکیٹ
ہم نے اپنی ریاست کی بنیاد جھوٹ، منافقت اور دوہرے معیار پر رکھی ہے، ہم نے اس ملک میں استحکام لانے کی کبھی کوشش ہی نہیں کی۔ ہم کہتے ہیں یہ ڈیوائن اسٹیٹ ہے لیکن ہمارا رویہ اس کے برعکس ہے، غیر سیاسی طاقتور حلقوں نے ادارے مفلوج کردیئے ہیں لیکن ضروری ہے کہ ملک کے منتخب اداروں کو کام کرنے دیا جائے، ہماری عدلیہ نے ملک کے ساتھ بہت برا سلوک کیا ہے، انہوں نے مارشل لا حکومتوں کے غیر آئینی اقدامات کو قانون کی چھتری فراہم کی ہے،ہم اقتصادی پریشانی کا شکار ہیں لیکن کوئی بھی ا یک مقصد کے لیے متحد ہونے کےلیے تیار نہیں ہے، وقت آگیا ہے دفاع سمیت غیرپیدواری اخراجات میں کٹوتی کی جائے۔
سردار اشرف خان
ابھی تین بحرانوں سے سے پاکستان گزر رہا ہے، معاشی ،سیکورٹی اور سب سے بڑا سیاسی بحران ہے، ہم سیاسی بحران کا علاج پینا ڈول سے ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں، ہماری سیاست میں بھی اب ڈونلڈ ٹرمپ ہیں، سیاسی مخالفت اتنی بڑھ گئی ہےکہ بیٹھ کر بات نہیں کی جاسکتی، احتساب صرف سیاست دانوں کے لیے رہ گیا ہے۔ سیاست دان تو مسلسل کٹہرے میں نظر آتے ہیں، کبھی ووٹ کےذریعے احتساب ہورہا ہوتا ہے کبھی میڈیا کے ذریعے اور کبھی اسٹیبلشمنٹ کے ذریعے ، سیاست دان اسی میں پھنسے رہتے ہیں، ہمارے یہاں ہیراپھیری اورمداخلت کے ساتھ انتخاب ہوتا ہے انتخابات نہیں ہوتے۔
عنبر رحیم شمسی
آج کی سیاست تکلیف دینے والا عمل ہے لیکن ریاستیں اس عمل سے گزرتی ہیں۔ آئین کے بعد 1972 سے 2022 تک آنے والے لوگ جب پاکستان کی تاریخ لکھیں گے تو وہ اس زمانےکو ہماری ابتدائی جمہوریت کادور کہیں گے، ہماری جمہوریت پختہ ہورہی ہے اور بالغ ہوکر اسٹیبلشمنٹ کے سائے سے نکل کرسامنے آرہی ہے، آنے والے دنوں میں یہاں گھمسان کا رن پڑے گا ،ہم کم درجے کی سول وارمیں داخل ہوچکے ہیں، جس میں تشدد مزید بڑھے گا، ریاستوں میں جمہوریت کاسفر سول وار یا تشددسے گزر کر آگے بڑھتا ہے، برطانیہ ، امریکا، کولمبیا اور بنگلا دیش اس کی مثالیں ہیں، ہمیں چارٹر آف اکانومی سے زیادہ چارٹر آف ڈیموکریسی کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹر اقدس افضل
ہمارا آج کا موضوع ہے سیاسی انتشار کیا رنگ لائے گا،کسی کو کچھ علم نہ بھی ہو لیکن سیاست پر بات اور بحث کرناسب کا پسندیدہ موضوع ہے۔ملک میں سیاسی افرا تفری مسلسل بڑھ رہی ہے، دوصوبائی اسمبلیاں پنجاب اور خیبرپختون خوا ٹوٹ گئی ہیں اوروہاں نگراں حکومتیں کام کررہی ہیں، قومی اسمبلی سے ایک سیاسی پارٹی پہلے مستعفی ہوکر باہرنکل گئی اور اب دوبارہ اسمبلی میں واپسی کی بھرپور کوشش کررہی ہے شاید اب اسے یہ احساس ہورہا ہے کہ نگراں حکومت کے قیام میں مشکلات کھڑی ہوسکتی ہیں۔ دھرنے پہلے بھی دے چکے ہیں جیل بھرو تحریک کا آغاز ہوچکا ہے سول نافرمانی کی دھمکیاں سننے کو مل رہی ہیں۔
حکومت ضمنی انتخابات کرانے سے فی الحال گریزکرتی نظر آرہی ہے، معاملہ عدالت چلاگیا ہے،حز ب اختلاف کے اراکین اسمبلی کے استعفے کا معاملہ بھی عدالت میں موجود ہے۔ کمزور معیشت کے ساتھ یہ سیاسی عدم استحکام ملک کےلیے کتنا نقصان دہ ہے، اس سے کون شعبوں پر برا اثر متاثرپڑسکتا ہےجس کے مجموعی برے اثرات سب پر پڑیں گے۔آج ہم اپنی گفتگو میں ان سب معاملات کو زیربحث لائیں گے،اور ساتھ ہی اپنے مہمانوں سے یہ بھی پوچھیں گے کہ مستقبل میں ہمیں کیسی صورت حال کا سامنا ہوسکتا ہے اوران حالات میں پاکستان سیاسی،سماجی ،معاشی تمام شعبوں میں کہاں کھڑا ہوگا۔اس اہم موضوع پر جنگ فورم میں شریک گفتگو تھے خالد جاوید ایڈووکیٹ (سابق صدر/ سیکریٹری، سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن)،سردار اشرف خان (بزنس مین/ پولی ٹیکل اکنامسٹ)،ڈاکٹر اقدس افضل (پروگرام ڈائریکٹر، سوشل پالیسی اینڈ ڈیولپمنٹ، حبیب یونی ورسٹی، کراچی)،عنبر رحیم شمسی (ڈائریکٹر، سینٹر آف ایکسی لینس ان جرنل ازم، آئی بی اے کراچی)،خالد امین (چانسلر، انڈس یونی ورسٹی)،فورم کی رپورٹ پیش خدمت ہے۔
جنگ: ملک کی موجودہ سیاسی حالات پر آپ کا نقطہ نظر کیا ہے؟
خالد امین: پاکستان کی موجودہ صورت حال پر میں اس شعر سے اپنے جذبات کا اظہار کرنا چاہوں گا،بقول قابل اجمیری
کچھ اپنے دل پہ بھی زخم کھاؤ مرے لہو کی بہار کب تک
مجھے سہارا بنانے والو، میں لڑکھڑایا تو کیا کرو گے
اس وقت ملک کی کیفیت بڑی خراب ہے، وہ لوگ جو یونی ورسٹی سےتعلق رکھتے ہیں،آج میرے پاس اور طلبا کے پاس فیس دینے اور اپنے اخراجات پورے کرنے کےلیے پیسے نہیں ہیں، موجودہ سیاسی جھگڑے نے ہرطبقے جو چاہے مزدور ہو یا کاروباری معاشی تباہی کا شکار ہے۔ اشد ضرورت ہے پاکستان کی تمام سیاسی مذہبی علاقائی جماعتیں، فوج عدلیہ میڈیا مثبت سوچ کے ساتھ کام کریں اور اگر ایسا نہیں کریں گے تو جو کچھ ہورہا ہے وہ بہت برا ہے ۔ ماہانہ تنخواہ ایک لاکھ روپے والے کا گزارا نہیں ہورہا، وہ بل سے لے کر بچوں کی فیس سب اخراجات کی وجہ سے مشکلات میں آگیا ہے۔ تو جو بیس ہزار روپے ماہانہ کمارہا ہے اس بےچارے کا کیا حال ہوگا۔ لہذا سب کو مل جل کر بیٹھنا ہوگا۔
جنگ: ملک کا موجودہ سیاسی انتشار کیا رنگ لائے گا؟
سردار اشرف خان : اگر کسی عمارت کی پہلی اینٹ ہی تیڑھی ہو تووہ کتنی ہی بلندبن جائے عمارت تیڑھی ہی رہے گی،ہم نے اپنی ریاست کی بنیاد جھوٹ، منافقت اور دوہرے معیار پر رکھی ہے ہم کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ ہیں، جو کارواں بہتر مستقبل کےلیے پاکستان کی صورت میں چلاتھا، آج یہاں کا انتہائی غریب شہری ہو یا امیرترین عادتاً، مزاجاً جھوٹ بول کر خوش ہوتے ہیں، معاشرے میں دوہرا معیار اور منافقت عام ہے،جو بدقسمتی ہے۔ہم نے اس ملک میں استحکام لانے کی کبھی کوشش ہی نہیں کی، لوگ بہت کہتے ہیں کہ جلد استحکام آجائے گا لیکن کوئی منصوبہ نہیں بتاتے کیسے آئے گا، یہ آئین کے ذریعے آئے گا،جمہوری اداروں کو مضبوط بنانے سے آئے گا۔
ہم کہتے ہیں یہ ڈیوائن اسٹیٹ ہے لیکن ہمارا رویہ اس کے برعکس ہے۔میں جرمن تاریخ پر ایک کتاب پڑھ رہا تھا جس میں لکھاگیا دوسری جنگ عظیم کے بعد جرمنی کا چانسلر کولون کے مئیر کو بنایا گیا، وہ جرمنی جو جنگ کے بعد مکمل تباہ ہوچکا تھا، اس نے دس سے پندرہ سال میں جرمنی کو دوبارہ تعمیر کردیا۔ لیکن وہاں ایک چیز موجود تھی اوروہ تھی قوم کی دوبارہ جینے کی خواہش، دوسرا ان کا لیڈر بے ایمان نہیں تھا۔ ہم میں قومی ہم آہنگی پیداہونا چاہیے، اس کا تقاضا سب کررہے ہیں تو کیا ایسی کوئی کوشش ہوتی نظر آرہی ہے ،لیکن بات آگے کیوں نہیں بڑھ رہی، تو کوئی نہ کوئی اس صورت حال کے پیچھے بیٹھا ہے، غیر سیاسی طاقتور حلقوں نےادارے مفلوج کردیئے ہیں ،ہماری بیوروکریسی نااہل ہے۔1947میں انگریز سرکار سے ملنے والی بیوروکریسی بڑی باصلاحیت تھی،جب ہمارے پاس کچھ نہیں تھا لیکن انہوں نے ملک چلایا۔ اب ہمارے حالا ت برے ہیں لیکن ابھی ملک دوبارہ ٹھیک کیا جاسکتا ہے،معاشی طور پر بھی مضبوط ہوسکتا ہے۔ لیکن ضروری ہے کہ ملک کے منتخب اداروں کو کام کرنے دیا جائے، ہر دوچارسال بعدکچھ لوگ آکر بیٹھ جاتے ہیں اورجب وہ جاتے ہیں تو پھر ان کی طرح طرح کی قصے کہانیاں سامنے آتی ہیں کہ اصل طاقت تو وہاں تھی۔
جنگ: عدلیہ بھی بطور اسٹیک ہولڈر سامنے آئی ہے اس کا کردار کیسا ہے؟
سردار اشرف خان : ہماری بہت سی برائیوں کی ماں عدلیہ ہے،جسٹس منیر نے جو غلط فیصلہ کیا تووہ سلسلہ تھما نہیں اس کے بعد بھی ہماری عدلیہ کے سابق چیف جسٹس اہے افتخار چوہدری ہوں یا ثاقب نثار یا دیگرایک دوسرے کے نقش قدم پر ہی چلتے رہے ،سب ایک ہی سوچ لے کر کام کرتے رہے۔ اگر ماضی کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ سابق صدر ایوب خان نے گول میزکانفرنس کی تو اس میں شیخ مجیب الرحمن نے حیرت انگیز طور پر بھی شرکت کی تھی،کیوں کہ اس حکومت نے شیخ مجیب الرحمن پردشمن ملک کے ایجنٹ ہونے کا الزام لگایا تھا لیکن سیاست دان بات چیت کاراستہ بند نہیں کرتے۔
ہمیں اپنی سوسائٹی کو متحد کرنے کےلیے سیاسی تبلیغ کی ضرورت ہے،ہماری عدلیہ نے ملک کے ساتھ بہت برا سلوک کیا ہے، انہوں نے مارشل لا حکومتوں کے غیر آئینی اقدامات کو قانون کی چھتری فراہم کی ہے ۔بڑی دلچسپ بات ہے عمران خان کہتے ہیں میں بے قصور ہوں ساری خرابی نواز شریف کرکےگئے، بہت سارے لوگ کہہ رہے ہیں کہ سب کیا دھرا عمران خان کا ہے، لیکن کوئی یہ نہیں کہہ رہا کہ یہ ہمارا اسٹرکچرل فالٹ ہے، اسٹیبلشمنٹ نے جو تباہ کن پالیسی اختیار کی تھی کیا وہ پالیسی آج بھی نہیں چل رہی۔
ہم اقتصادی پریشانی کا شکار ہیں لیکن کوئی بھی ا یک مقصد کے لیے متحد ہونے کے لیے تیار نہیں ہے۔ ہماری سیاسی لیڈر شپ وہ عمران ہوں ، نوازشریف یا بے نظیر بھٹو شہید انہیں ناممکن ٹاسک دیے گئے ہیں ، ان سے کہاگیا کہ یہ کرکے دکھاو ،وہ کوشش کرتے ہیں جب وہ نہیں کرپاتے تو انہیں مار کرنکال دیا جاتا ہے، جو مسائل سابق وزرا اعظم کو درپیش رہے ان کا سامنا شہبازشریف بھی کررہے ہیں لہذایہ ہمارا اسٹرکچرل ڈیفالٹ ہے۔
سابق وزیراعظم شوکت عزیز میرے بہت اچھے دوست تھے ایک ملاقات ہوئی تو میں نے خراب حکومتی کارکردگی کی شکایت کی توانہوں نے دھیمی آواز میں بتایا تھا کہ تمہیں اندر کی بات بتاوں ، اس ملک میں کوئی کام کرنے نہیں دیتا، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے آخر یہ کوئی ہے کون۔میرے ذہن میں ایک ہی جواب تھا یہ کوئی وہ ہے جو انہیں وزیراعظم بنا کرلایا یہ سلسلہ جاری ہے۔ موجودہ حکومت کمزور تو ہے لیکن سنبھلنے کی کوشش کررہی ہے۔
جنگ: ملک میں انتشار بڑھ رہا ہے،کچھ ماہرین کا دعویٰ ہے کہ ٹیکنیکلی ڈیفالٹ ہوچکے ہیں ، اگر نہیں تواس سے بچنے کےلیے کیا کریں؟
سردار اشرف خان: ہمیں مایوسی سے نکل کر سوچنا ہوگا ،عملا وہ وقت آگیا ہے کہ حکومت اپنی عیاشی کم کرے غیرپیداواری اخراجات اوردفاع سمیت بعض شعبے جسےاب تک چھیڑا نہیں گیا ان کے 30فیصد بجٹ میں کمی کی جائے، کیوں کہ قوم بھوک سے لڑرہی ہے تو کفایت شعاری کرتے ہوئے صرف ان دفاعی آلات پر اخراجات کیے جائیں، اگر ایسا نہیں کیاتو سوائے کھائی کے آگے کچھ نہیں ہے ذی شعور قوم کی طرح اس سےبچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
ریاست قائم رہنا اور بات ہے اس کی خوش حالی دوسری بات ہےاور عوام کا مطمئین ہونا اور بات ہے،75سال میں ریاست نے مختلف مد میں کافی قرض لیا ہے ،جو کچھ لیا تو آج کے حساب سے دوسوبلین ڈالر کے قرضےتسلیم لیتے ہیں، لیکن بتایا جائے کہ وہ دوسوبلین ڈالر خرچ کہا ں ہوئے۔ نہ یہاں اچھی تعلیم ہے نہ صحت کے شعبے میں کوئی خاص کام ہوا ، بنیادی علاج کی سہولت تک لوگوں کو ہم نہیں دے سکے ،ہمارا مزدور اور نوجوان روزگار کےلیے پریشان ہے۔تویہ سوال سب کا ہے پاکستان کو اس سے کیا ملا کچھ نہیں ملا صرف کچھ مخصوص لوگوں نےاپنے لیےیہ سمیٹا۔
جنگ: ہم سیاسی اور معاشی طور پر مایوسی کا شکار ہیں ،کہا جاتا ہے کہ اندھیرابڑھ جائے تو روشنی کی کرن اس کے بعد ہی پھـوٹتی ہے کیا آپ حالات کو ایسے ہی دیکھتی ہیں؟
عنبر رحیم شمسی: ہم نے بہت کچھ دیکھاہے، لیکن ہمارے نوجوان ابھی بھی پرامید ہے،ا بھی تین بحرانوں سے سے پاکستان گزررہاہے، معاشی ،سیکورٹی اور سب سے بڑا سیاسی بحران ہے۔ پچھلے سال کسی نے پوچھا تھا کہ دوہزار بائیس کی سب سے بڑی اسٹوری کیا ہوگی مجھے سیاست ہی سب سے بڑی اسٹوری نظر آئی تھی جو آج بھی ہے۔ ہم سیاسی بحران کا علاج پینا ڈول سے ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں، کچھ لوگوں کا خیال ہے یہ اسی اور نوے کی دہائی کی سیاست ہورہی ہے ،میں سمجھتی ہوں ایسا نہیں ہے کہ نئی طرح کی سیاست ہے،سیاست کا بنیادی مقصد عوام کی بہتری ہوتا ہے،سیاست سے مراد مخالف کے خلاف حربہ کوئی بھی استعمال ہو لیکن بنیادی حکمت عملی یہ ہوتی ہے کہ جو بھی حالات ہوں لیکن اگر سیکورٹی، معیشت یا اور دیگر سنجیدہ معاملات درپیش ہوں تو بات چیت کےلیے فوری بیٹھا جاتا ہے۔
امریکا میں بھی آج کل سیاسی طور پر بڑی تقسیم ہے، وہاں بھی جب دو بڑی جماعتیں ری پبلیکن اور ڈیموکریٹ میں تناو بڑھتا ہے تو بجٹ رک جاتا ہے، لیکن مہنگائی کو قابو میں کرنے کےلیے دونوں جماعتیں جو مخالفت میں بہت آگے بڑھے ہوئے ہیں، کانگریس کے ذریعے کمیٹی میں بیٹھے اور مہنگائی سےمتعلق بل پاس کروایا اس کام کے لیے پورا ایک سال لگا ہے۔ یہ ہی اصل سیاست بھی ہے اوراسی طرح آگے بڑھا جاتا ہے۔ اسے لین دین کی سیاست کہا جاتا ہے، لیکن ایسی کوششیں اس وقت کی جاتی ہیں جب سیاست میں مقصد صر ف اقتدار کا حصول نہ ہو۔ جب عوام کی مشکلات کم کرنے کےلیے قانون ساز ی کی جاتی ہے تو عوام بھی اعتماد کرتے ہے،اسی طرح آپ آگے بڑھ سکیں گے۔
لیکن ابھی یہ سب ختم نظر آرہا ہے ،ہماری سیاست میں بھی اب ڈونلڈ ٹرمپ ہیں،سیاسی مخالفت اتنی بڑھ گئی ہےکہ بیٹھ کر بات نہیں کی جاسکتی۔ آل پارٹیز کانفرنس ہونی تھی لیکن اب تک اس کی تاریخ کااعلان نہیں ہوسکا ہے۔اس سےامید تھی کہ شاید اس طر ح مل بیٹھنے کا بہانہ مل جائے لیکن وہاں بھی درمیان میں ضد اور انا ہیں۔ جس اسٹرکچرل فالٹ کا ذکر کیا گیا انتشار کی بنیادی وجہ یہ ہی ہے،جویہ کرتے ہیں انہیں روکنے ٹوکنے والا کوئی نہیں ہے اوران کا احتساب بھی نہیں ہے،ورنہ بلوچستان میں سیاسی ہیراپھیری نہیں ہو، انتخاب سے پہلے جنوبی پنجاب کے لوگوں کے پاس فون کالز نہ آئیں کہ انتخاب سے پہلے اس جماعت کے ساتھ جاؤ۔
ایک صاحب انٹرویو یا کسی جلسے میں کسی کا نام تولیتے ہیں اور وہ فرد میڈیا یا ترجمانوں کےذریعے اپنی بات پہنچا دیتے ہیں لیکن کسی کا احتساب نہیں ہوتا، احتساب صرف سیاست دانوں کےلیے رہ گیا ہے۔ سیاست دان تو مسلسل کٹہرےمیں نظر آتے ہیں، کبھی ووٹ کےذریعے احتساب ہورہا ہوتا ہے کبھی میڈیا کےذریعے اور کبھی اسٹیبلشمنٹ کے ذریعے ، سیاست دان اسی میں پھنسے رہتے ہیں۔ سیاسی جماعت کارکردگی کی بنیاد پر واپس اقتدارمیں نہیں آتی، ہمارے یہاں ہیراپھیری اورمداخلت کے ساتھ انتخاب ہوتا ہے انتخابات نہیں ہوتے، اس کے باوجود لوگوں کے ووٹ ڈالنے کا فائدہ ہے، سیاست دان اقتدار میں آنے کےلیے اسٹیبلشمنٹ سے مدد کےطالب رہتے ہیں لیکن وہ اپنے ووٹرز کی بھی سنتے ہیں لہذا ووٹ ڈالنے کا فائدہ ہے۔
یہاں جرمنی کی بات کی گئی، ہٹلر بھی ووٹ کےذریعے آیا تھا تو دوسری جنگ عظیم کے بعد اپنی حفاظت کےلیے جرمنی نے اپنے آئین کو بھی تبدیل کیا تھا، جمہوریت کے مستقبل کو محفوظ کرنے کےلیے ایک دفتر قائم کیا گیا تاکہ آئندہ کوئی فاشز یا مطلق العنان اقتدار میں واپس نہ آسکے، اس کا کچھ حد تک فائدہ ہوا ۔تاہم ان کے ڈی این اے میں اب یہ ہے کہ جمہوریت کو محفوظ رکھنا ہے ہمارے یہاں تو 73 کےآئین کےنفاذ کے بعد بھی سوائے محمد خان جونیجو، ظفراللہ جمالی اور شوکت عزیز کے تمام وزرا اعظم گرفتار ہوئے ۔لیکن جونوجوان ابھی بھی ووٹ ڈالتے ہیں ان کی وجہ سے میں حالات بدلنے کےلیے پرامید ہوں۔ مرکزی میڈیا پر کئی پابندیاں ہوتی ہیں لیکن سوشل میڈیا کا پلیٹ فارم موجود ہے اس میں برائیاں ہیں لیکن اچھائی بھی موجود ہے آپ لوگ اپنی آواز وہاں بلند کریں۔
جنگ: ہمارے نوجوانوں کو آج بھی بےخبر ہیں اسے پورا سچ نہیں پڑھایا جاتا انہیں جمہوریت اور آئین کے فائدے نہیں بتائے جاتے، یہاں جمہوریت اور آئین کے متعلق کہاجاتا ہے کہ یہ ریاست کو کچھ نہیں دے سکتے،جب کہ آج تک یہ ہمارے یہاں مکمل نافذ ہی نہیں ہوسکا ،تو بڑھتے سیاسی انتشار میں آپ پاکستان کا کیا مستقبل دیکھ رہے ہیں؟
ڈاکٹر اقدس افضل: دوہزار تئیس ہمارے آئین کی پچاسویں سالگرہ کا سال ہے،انسان کی نفسیات ہے اس کے نزدیک اہم وقت وہ ہے جس سے وہ گزررہا ہوتا ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے، وہ بعض اوقات ماضی میں زیادہ برے وقت سے گزر چکا ہوتا ہے اور مستقبل میں بھی کچھ ہونے کا خدشہ رہتا ہے۔ جن خلفشار، انتشار،عدم استحکام غیریقینی حالات سےپاکستان کو آج سامنا ہے اور ہم سمجھ رہے ہیں کہ یہ تجربہ پہلی مرتبہ ہورہا ہے ، جوکہ ایسا نہیں ہے، سری لنکا میں ایک عرصے سول وار رہی،بنگلہ دیش جو کبھی ہمارا بازو تھا اس نے کس طرح آزادی حاصل کی، 1861 سے 1865 تک امریکا میں بھی سول وار ہوئی، کوئی سول سیاسی نظام کسی مقام پر پہنچتا ہے تو وہ کسی نہ کسی صورت تشدد کے واقعات کےذریعے ہی پہنچتا ہے۔
یہ تکلیف دینے والا عمل ہے لیکن ریاستیں اس عمل سے گزرتی ہیں۔میں سمجھتا ہو ں کہ آئین کے بعد1972 سے 2022 تک آنے والے لوگ جب پاکستان کی تاریخ لکھیں گے تو وہ اس زمانےکو ہماری ابتدائی جمہوریت کادور کہیں گے، یہ وہ دور تھا جب ریاست پاکستان کسی بھی وجہ دو حصوں میں تقسیم ہوگئی تھی،اس کے بعد پاکستان قائم رہنا ایک معجزہ ہے۔ ان واقعات میں بھارت بنیادی کردار ہے تو پھر ہماری ساری پالیسیاں ،معاہدے خارجہ امور بھارتی خطرات کو مدنظر رکھ کر تیار ہوتی ہیں، ہماری اسٹیبلشمنٹ کا سارا زور ریاست بچانے پر مرکوز رہی لیکن اس کے نتیجے میں آپ کے اہم حریف بھارت کا دفاعی بجٹ 72بلین ڈالرز پر پہنچ گیا اور جو ہمیں بتایا جاتا ہے اس کےمطابق پاکستان کا آٹھ اور نو بلین ڈالرکا،بھارت کے ریزرو 650 بلین ڈالر اور ہمارے صرف دو اعشاریہ چھ بلین ڈالر،بھارت نے آ پ کے کل ڈیفنس بجٹ سے زیادہ اپنا اضافہ کیا ہےتو جس حریف سے مقابلے کے لیے پالیسیاں بنائیں وہ تو بہت آگے چلاگیا ہے، وہ کوئی اور لیگ ہیں اور آپ کوئی اور لیگ، وہ ٹیسٹ کرکٹر ہیں اور ہم ٹیپ بال کرکٹر لہذا اب ہم نہیں کھیل سکتے۔
لیکن دوسری طرف ہماری جمہوریت پختہ ہورہی ہے اور بالغ ہوکر اسٹیبلشمنٹ کے سائے سے نکل کرسامنے آرہی ہے۔ میں سمجھتا ہوں آنے والے دنوں میں یہاں گھمسان کا رن پڑے گا ،ہم کم درجے کی سول وارمیں داخل ہوچکے ہیں،جس میں تشدد مزید بڑھے گا اس کا سوا کچھ نظر نہیں آرہا، دنیا کی تاریخ بتاتی ہے کہ طاقت کے استعمال کے بغیر اختیار حاصل نہیں ہوا ہے۔ ہمارے یہاں بھی اب ایسا ہوتا نظر آرہا ہے، میں اسے جمہوریت میں پختگی کی علامت سمجھ رہا ہوں اور اب یہ عوام کے پاس جائے گی یہ قدرتی عمل ہے۔
لیکن اس میں سب کے لیے خطرہ بھی نظر آرہا ہے، ریاستوں میں جمہوریت کاسفر سول وار یا تشدد سے گزرکر آگے بڑھتا ہے، برطانیہ ،امریکا، کولمبیا اور بنگلہ دیش اس کی مثالیں ہیں، مجھے خدشہ ہے کہ انڈیا جس طرف جارہا ہے وہاں بھی تشدد ہوگا۔ میرے خیال میں پاکستان میں ایک بڑی تحریک کا آغاز ہونے جارہا ہے جوبھی طاقت اسٹیبلشمنٹ کےپاس رہی ہے وہ منتقل ہوگی۔خدشہ ہے اس دوران ہم پرتشدد واقعات دیکھیں گے یہ مسئلہ گفتگو سے بھی طے ہوسکتا ہے۔ لیکن اس کا امکان بہت کم نظر آرہا ہے۔
جنگ: اسٹیبلشمنٹ ،عدلیہ الیکشن کمیشن سب متنازعہ ہوگئے ہیں، یہ چیزیں کھل کرسامنے آرہی ہیں، اگر عمران خان نہیں جیتیں گے وہ اگلے الیکشن کے نتائج قبول نہیں کریں گےانہوں نے اداروں کو آگے بھی متنازعہ کرنے کا بندوبست کررکھا ہے تو ان حالات میں ملک کا کیا مستقبل ہے؟
خالد جاوید ایڈووکیٹ: 1947 میں پاکستان وجود میں آیا،تو ان گزرے برسوں کےہر دور میں ہم سیاسی عدم استحکام کا شکار رہے،لیکن ان 75برسوں میں صرف ایک سیاسی جماعت پیپلزپارٹی کو یہ امتیاز حاصل ہےکہ جب اسے موقع ملا تو اس نےاپنی آئینی مدت پوری کی پھر اس جمہوری حکومت نے الیکشن کروائےاور پرامن طریقے سے دوسری سول حکومت کو آئینی طریقے سے اقتدار منتقل کیا، تو یہ سمجھنا کہ ہمارے یہاں آئینی قانونی اور پرامن طریقے سے انتقال اقتدار نہیں ہوسکتا میں اس بات سے اتفاق نہیں کرتا، پاکستان پیپلز پارٹی وہ جماعت ہے جس پر تنقید کرنا اکثر لوگ اپنا فرض سمجھتے ہیں، پروپیگنڈے کے ذریعے لوگوں کامائنڈ سیٹ بنادیا گیا ہے کہ اس پرتنقید کرنا فیشن تصور کیا جاتا ہے۔
میں خرابیوں کی ذمہ دارعدلیہ کوسمجھتا ہوں،جس میں وکیل جج سب شامل ہیں، سب سے پہلے اسے ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے یہاں انصاف نہیں ہورہا صرف فیصلے ہورہے ہیں یا کروائے جارہے ہیں یاکہیں اورسے لکھے ہوئے آرہے ہیں جب تک وہ اپنی عقل سے فیصلے نہیں کریں گے یہ ٹھیک نہیں ہوسکتی۔ دوسرے نمبر پرنظام تعلیم ہے اسے ٹھیک کرنا پڑے گا، ہمارے یہاں کورس میں نرسری سے لے کر پی ایچ ڈی تک اخلاقیات، سماجی ذمہ داری یا معاشرے میں زندگی کیسی گزاری جائے یا سیاسی شعوربلند کرنےکےلیےکوئی لیکچر یا تعلیم نہیں دی جاتی ہے۔ طلبا کو جو علم مل رہا، وہ پیشہ وارانہ تو ہے لیکن اس سے معاشرہ ٹھیک نہیں ہوتا، پہلے انہیں اچھا انسان بنائیں پھر معاشرہ ٹھیک ہوگا۔
تیسرا مجھے میڈیا سے شکایت ہے،سوائے مایوسی دکھانے، عیب جوئی اور دشنام طرازی کے وہاں کچھ نہیں ہے، میڈیا کو پاکستان کے مثبت روشن پہلو بھی دکھانے چاہیں۔ جو کوئی خارجہ پالیسی میں خیرسگالی کی کوشش کرتا ہے اس پر سوالات کھڑے کردیے جاتے ہیں ،غداری کے سرٹیفیکٹ بانٹنے کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔ ہم زرعی ملک ہیں لیکن اشیائے خوردو نوش بھی درآمد کررہے جو شرم کا مقام ہے۔ ہمارے یہاں حکومتیں بنتی اور بگڑتی نہیں ہیں بلکہ بنائی اور بگاڑی جاتی ہیں، پہلے لوگ اسے ڈھکے چھپے لفظوں میں کہتے تھے اب صاف کہا جارہا ہے۔ جب تک یہ عمل خل رہے گا معاملات ٹھیک نہیں ہوں گے۔
موجودہ اقتصادی بحران میں عوام پر ہر قسم کےٹیکس لگائے جارہے ہیں،لیکن ہمارے یہاں جو وی وی آئی پی کلچر موجود ہے اس پر کسی کی نظر نہیں یا ہمت نہیں کہ وہ اس پر کٹوتی کرے۔کتنی بدقسمتی ہے کہ 25ہزار آمدنی والا بھی سیلز ٹیکس کی مد میں وہ ہی ٹیکس دیتا ہے اور 20لاکھ ماہانہ کمانے والا دیتا ہے، حالانکہ پٹرول گاڑی بجلی گیس سب مفت مل رہا ہے، عیاشی سے بھرپور ہمیں یہ وی وی آئی پی کلچر ختم کرنا پڑے گا۔ اس کے بغیر ہماری اقتصادی حالت ٹھیک نہیں ہوسکتی۔
جنگ: یونی ورسٹیوں میں یونین سازی پر پابندی سے ہمیں کیا حاصل ہواکہاجاتا ہے تعلیمی ادارے ہی ہماری سیاست کی نرسریاں تھیں؟
ڈاکٹر اقدس افضل: پابندی سےہماری قومی سیاست کو بہت نقصان پہنچا ہے، گالم گلوچ بدتمیزی جو ہم سیاست میں دیکھ رہے ہیں اس کی وجوہات میں یہ خلا بھی ہے ، پابندیوں سےایک دوسرے کی بات برداشت کرنے کی صلاحیت ختم ہوگئی ہے، ہم نے اپنی پالیسیوں سے نوجوان نسل کےلیے الیکٹوریل نظام اجنبی بنا دیاہے۔چھوٹی ہو یا بڑی یونی ورسٹی کا طالب علم وہ سیاست سے متعلق کچھ نہیں جانتا، پیپلزپارٹی کی صوبائی حکومت نے سندھ کے تعلیم اداروں سے یونین سازی پر پابندی ختم کرکے اچھا اقدام کیا ہے، تمام یونی ورسٹیاں طلبایونین کو لازمی کریں، اس کے ساتھ پاکستان آئین اورجمہوریت کا مضمون متعارف کرانا چاہیے تاکہ نئے لوگ پڑھیں سمجھیں اور سیکھیں۔ملک میں پہلی مرتبہ اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی پارٹی میں لڑائی شروع ہوگئی ہے، جو پہلے کبھی نہیں ہوا،اس سے قبل سیاسی جماعت کا مقابلہ سیاسی جماعت سے ہوتا تھا جس میں کوئی ایک جماعت اسٹیبلشمنٹ کی پسندیدہ ہوتی تھی۔و ہ اس لڑائی میں سامنے نہیں ہوتی تھی جو لمحہ فکریہ بھی ہے،لیکن وقت آگیا ہے کہ اقتدار عوام کے ہاتھوں میں ہو۔
جنگ :گزشتہ چار سال میں تحریک انصاف نےصوبائی خودمختاری کے خلاف، این ایف سی ایوارڈ اور ملک میں صدارتی نظام لانے کی بات کی کیا یہ مناسب رویہ تھا؟
خالد جاوید: ہم جب کسی ترقی یافتہ ملک کو دیکھتے ہیں تو وہاں ہمیں اقتدار کسی ایک جگہ جمع نظر نہیں آتا،صوبائی خودمختاری ہماری بہتری کا لازمی جزو ہے، اختیار اسی طرح بتدریج نیچے کی طرف جاتا ہے اسی میں ملک کی بقا اور ہماری بہتری ہے، سینٹر لائزیشن ملک کےلیے بہتر نہیں ہے۔
جنگ: معیشت کے ڈیفالٹ کی بات ہورہی ہے اور ہوگیا تو کیا ہوگا؟
سردار اشرف خان: ہم ڈیفالٹ نہیں کریں گے،پاکستان کا سب سے بڑا مجرم طبقہ کاروباری ہیں، 99فیصد کاروباری طبقہ کوئی ٹیکس نہیں دیتا، 90فیصد ٹاپ بزنس مین ٹیکس نہیں دیتے، ہمارا جوبھی ٹیکس جمع ہورہا ہے وہ عام آدمی ادا کرتا ہے۔ حالیہ اور مستقبل کے مسائل سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے ملکی وسائل پیدا کریں جس کے لیے سرکاری اور غیرسرکاری طبقہ اشرافیہ کو آگے آنا پڑےگا۔ ہر شعبے کو اب ٹیکس دینا پڑے گا۔ ہمیں چارٹرآف اکانومی کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹر اقدس افضل: ہمیں چارٹر آف اکانومی سے زیادہ چارٹر آف ڈیموکریسی کی ضرورت ہے کیوں کہ نئی سیاسی قوت کے سامنے آنے کے بعد پچھلے والا غیرمتعلق ہوگیا ہے اسے دستخط کیے بغیر ہم کوئی کامیابی حاصل کرلیںیہ خام خیالی کے سوا کچھ نہیں ہے۔
جنگ: اس پردستخط ہونے کے کتنے امکانات ہیں؟
ڈاکٹراقدس افضل: اس کے امکانات بہت کم ہیں لیکن ہمارے لیے یہ کرنا بہت ضروری ہے۔
عنبر رحیم شمسی: چارٹر آف ڈیموکریسی ضروری ہے لیکن چارٹر آف اکانومی نہیں ہونا چاہیے کیوں کہ ہرجماعت کی پالیسیوں میں کچھ فرق تو رہے۔
محمد اسحق: سیاسی انتشار نے مشکل میں ڈال دیا ہے ہم ووٹ ڈالتے ہیں تب بھی مشکل، نہیں ڈالتے تب بھی پریشانی، بلدیاتی انتخابات اس کی مثال ہے وہ الیکشن تھے یا سیلیکشن، تو ووٹ ڈالنے کا فائدہ کیا ہے، اس الجھن نے نوجوان کیسےنکلیں؟
عنبر رحیم شمسی : ووٹ ڈالنے کا فائدہ ہوتا ہے کیوں کہ مخصوص فیصد ووٹ نہیں پڑیں گے توکوئی جماعت اقتدار میں نہیں آئے گی اور لوکل باڈیز الیکشن میں ووٹ ڈالنے کا توزیادہ فائدہ ہوتا ہے، 90فیصد بلدیاتی نتائج آگئے ہیں، الیکشن میں کچھ حد تک گڑبڑ ہوئی لیکن اس پیمانے پر نہیں ہوئی جیسا کہ کہا جارہا ہے،میں اسے انتخاب نہیں انتخابات سمجھتی ہوں۔ اگر ہم اپنی جمہوریت کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں تو اس کاآغاز بلدیات سے ہی ہوگا،ہمارے پانی، صفائی سڑک کے مسائل بلدیاتی امیدوار حل کریں یہ رکن صوبائی یا قومی اسمبلی کا کام نہیں ہے۔
صغیر ارشاد: ہم طالب علم کس طرح موجودہ صورت حال میں معاشرے میں تبدیلی لاسکتے ہیں؟
خالدجاوید: طالب علم کی پہلی ذمہ داری اپنی تعلیم پر توجہ ہے،اسے مکمل کرنے کے بعد دیگر مراحل کا سوچیں،پھر سیاست کریںووٹ ڈالیں لیکن ووٹ سوچ سمجھ کرڈالیں، ووٹ ڈالتے وقت کسی شخصیت سے متاثر نہ ہوں ، اس جماعت کا پورا کردار دیکھیں، ہوسکتا ہے کسی جماعت کاسربراہ کرشماتی شخصیت کا حامل ہواور آپ آنکھ بند کرکے ووٹ دے دیں لیکن بطور جماعت وہ ڈلیور نہیں کرسکے گا۔
شنکر: ڈی جیٹل دور ہے لیکن ہمارا نصاب پرانا ہے یہ کیسے جدید حالات کے مطابق بنایاجاسکتا ہے؟
خالد جاوید: اس میں کوئی شک نہیں ہمارا نصاب پرانا ہے ،اس کو بدلنے کی ضرورت ہے۔
جنگ: ہم نے آج کے فورم میں انتشار کی وجوہات جاننے کی کوشش کی،ہم یونی ورسٹی میں طلبا کا آخری گروپ تھے جنہوں نے یونین سازی دیکھی،اس زمانے میں مختلف نظریات کے لوگ کھل کربات کرتے تھے جس سے دوسرے کی بات برداشت کرنے کی عادت پروان چڑھتی تھی۔ وہ برداشت آج ہمارے معاشرے میں نہیں ہے، یونین سازی کے دور کا نوجوان مستقبل میں اپنے نظریات کے تحت طے کرلیتے تھے انہوں نے کس طرف جانا ہے کسے ووٹ کرنا ہے۔
طالب علموں، نوجوانوں کو بھی تمام سیاسی جماعتوں کا مطالعہ کرنا چاہیے ان کے منشور ان کے کردار کا،پھر آپ کو پتا چلے گا کس جماعت نے ملک کو عوام کو کیا دیا ہے، آپ کا فوکس ہونا چاہیے ملک میں جمہوریت اور آئین اس کے لیے کون زیادہ سود مندہے وہی آپ کو آگے لے کر جائے گا، ملک میں آئین کی حکمرانی ہی آپ کو آگے لے کرجائے گی اور کوئی دوسرا راستہ نہیں۔