• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

توشہ خانہ کیس: عمران خان کو گرفتار کرکے 18 مارچ کو پیش کرنے کا حکم برقرار

اسلام آباد کی ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال کی عدالت نے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کی وارنٹ گرفتاری معطل کرنے کی درخواست خارج کردی۔ 

عدالت نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے سابق وزیراعظم عمران خان کو گرفتار کر کے 18 مارچ کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم برقرار رکھا۔ 

ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال نے ریمارکس دیے کہ اُمید ہے تفصیلی فیصلہ پڑھ کے مزہ آئے گا، قانون کے ہر پہلو کو درخواست پر فیصلہ جاری کرتے وقت دیکھا گیا ہے۔

خیال رہے کہ اسلام آباد کے ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال کی عدالت نے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کی وارنٹ گرفتاری معطل کرنے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ 

کیس کی سماعت کے دوران آئی جی اسلام آباد اکبر ناصر خان عدالت میں پیش ہوئے جنہوں نے کہا کہ میں ان پولیس اہلکاروں کی فیملی کو کیا جواب دوں جن کے بیٹوں پر لاہور میں ظلم ہوا؟

ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت میں الیکشن کمیشن کے وکیل سعد حسن بھی پیش ہوئے۔

آئی جی اسلام آباد نے کہا کہ اسلام آباد پولیس کے کسی نمائندے کو عمران خان سے ملنے نہیں دیا گیا، گزشتہ روز بھی عمران خان کی عدالت میں پیشی کی یقین دہانی کروائی گئی، اسلام آباد پولیس سے کسی نے زمان پارک میں بات نہیں کی، بلکہ ان پر پیٹرول بم اور پتھر پھینکے گئے۔

عدالت کو آئی جی اسلام آباد نے بتایا کہ جو وارنٹ کی تکمیل کے لیے گئے تھے ان پولیس اہلکاروں پر تشدد ہوا، پولیس اہلکار نہتے تھے، کوئی اسلحہ ان کے پاس موجود نہیں تھا، میں پولیس اہلکاروں کی فیملی کو کیا جواب دوں جن کے بیٹوں پر لاہور میں ظلم ہوا۔

آئی جی اسلام آباد نے بتایا کہ ماضی میں گھروں سے عدالت لے کر آنا پولیس کے لیے معمول کی بات تھی، اگر ایک شخص کو رعایت ملتی ہے تو دیگر کو بھی ملنا چاہیے، آئین کے سامنے تمام افراد یکساں ہیں، وارنٹِ گرفتاری سے متعلق فیصلہ عدالت پر چھوڑتا ہوں۔

جج نے آئی جی اسلام آباد سے سوال کیا کہ املاک کو کتنا نقصان ہوا ہے؟

آئی جی اسلام آباد نے جواب دیا کہ پولیس کی واٹر کینن جلائی گئی، 65 پولیس والے زخمی ہوئے۔

قانون کے مطابق سیشن عدالت نے درست فیصلہ کیا: جج

پہلی مرتبہ وقفے کے بعد ساعت ہوئی تو اسلام آباد کی عدالت کے جج ظفر اقبال نے ریمارکس میں کہا کہ قانون کے مطابق سیشن عدالت نے درست فیصلہ کیا۔

اس موقع پر سینیٹر شبلی فراز اور عمران خان کے وکلاء کمرۂ عدالت میں پہنچ گئے۔

لاء آفیسر نے عدالت کو بتایا کہ تفتیشی افسر لاہور میں ہیں، الیکشن کمیشن کے وکیل ڈھائی بجے عدالت پہنچ جائیں گے۔

لاء آفیسر کی جانب سے عدالت سے سماعت میں ڈھائی بجے تک وقفہ کرنے کی استدعا کر دی گئی۔

اس موقع پر عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے استدعا کی کہ وارنٹِ گرفتاری کے فیصلے اور انڈر ٹیکنگ کی درخواست پر نظرِ ثانی کی جائے، 18 مارچ کی تاریخ قریب ہے، وارنٹِ گرفتاری منسوخ کیے جائیں، عدالت کے پاس اختیار ہے کہ وارنٹ منسوخ کر دیے جائیں، ڈھائی بجے اگر آپ وارنٹ بحال رکھتے ہیں تو ہمیں اپیل دائر کرنے کے لیے وقت چاہیے ہو گا، تمام صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے سیشن عدالت کوئی فیصلہ جاری کرے۔

جج ظفر اقبال نے کہا کہ قانون کے مطابق سیشن عدالت نے درست فیصلہ کیا، عمران خان حاضر ہوتے، پھر عدالت جانتی اور وہ جانتے، عمران خان نے عدالت میں حاضر نہ ہو کر بات کو پیچیدہ بنا دیا، عدالت مکمل طور پر عمران خان کے ساتھ تعاون کرنا چاہتی ہے، عدالت نہیں چاہتی کہ عمران خان کو جان کا خطرہ ہو اور وہ آئیں لیکن قانون کے کچھ تقاضے ہیں، اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو بھی سیشن عدالت کو فالو کرنا پڑتا ہے، عدالتِ عالیہ نے کہا ہے کہ عمران خان کے وارنٹ بالکل ٹھیک جاری کیے ہیں۔

خواجہ حارث نے استدعا کی کہ عمران خان کی حاضری یقینی بنانے کے لیے عدالت تمام پہلوؤں کو دیکھے، موجودہ صورتِ حال کے پیشِ نظر عدالت دیکھے کہ ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرناٹھیک ہے یا نہیں، عدالت عمران خان کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری واپس لے، اسلام آباد ہائی کورٹ نے انڈر ٹیکنگ کو بروئے کار لانے کے حوالے سے فیصلے میں لکھا ہے۔

چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث نے عدالت سے درخواست کی کہ عمران خان کے وارنٹِ گرفتاری کے حوالے سے اسلام آباد ہائی کورٹ کے تمام پہلوؤں کو جوڑا جائے، عدالتِ عالیہ نے عمران خان کی وارنٹ منسوخی کی درخواست مسترد نہیں کی، سیشن عدالت اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے الفاظ کو سمجھے، سیشن عدالت کی جانب سے وارنٹِ گرفتاری جاری ہونے کے بعد صورتِ حال مختلف ہے جس کو سمجھا جائے، عمران خان نے ایک بار نہیں کہا کہ میں عدالت میں پیش نہیں ہوں گا، انہوں نے کہا کہ 18 مارچ کو عدالت کے سامنے پیش ہوں گا۔

عمران خان کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ وارنٹ ختم کرنے کی استدعا نہیں ہے، 18 مارچ تک معطل کرنے کی درخواست ہے، سیشن عدالت کے پاس اختیار ہے کہ وارنٹِ گرفتاری کے فیصلے کو 2 دن روک لیں، عمران خان توشہ خانہ کیس میں عدالت آئیں گے، عدالت میں عمران خان کو پکڑ کر لانا اور ان کے خود چل کر آنے میں فرق ہو گا۔

عمران خان کی جانب سے مزاحمت بہت عجیب ہے: جج

جج ظفر اقبال نے ریمارکس میں کہا کہ عمران خان کی جانب سے مزاحمت بہت عجیب ہے، لڑائی جھگڑا ہونا نہیں چاہیے تھا، لیگل ٹیم کو پی ٹی آئی کے کارکنان کو بتانا چاہیے کہ قانون سے تعاون کرنا ہوتا ہے، مزاحمت نہیں۔

سماعت میں ایک بار پھر وقفہ

وکیل خواجہ حارث نے استدعا کی کہ پرسوں کی بات ہے، وارنٹِ گرفتاری سے متعلق دیکھ لیں، جب مسئلہ حل ہو سکتا ہے تو اس کو کیوں بڑھایا جائے؟ عمران خان بغیر گرفتاری کے اگر عدالت میں پیش ہو جائیں تو کیس پر اثر نہیں پڑے گا۔

عدالت نے الیکشن کمیشن کے وکیل کے آنے تک سماعت میں ایک بار پھر وقفہ کر دیا۔

وقفے کے بعد سماعت کرتے ہوئے عدالت نے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کی وارنٹ گرفتاری معطل کرنے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔

شبلی فراز، فواد چوہدری نے وکیل کو دلائل سے روکدیا

سماعت کے دوران پی ٹی آئی رہنما شبلی فراز اور فواد چوہدری نے اپنے ہی وکیل کو دلائل سے روک دیا۔

عمران خان کے وکیل شیر افضل مروت نے سماعت کے دوران دلائل دینے کی کوشش کی۔

شبلی فراز اور فیصل چوہدری نے وکیل شیر افضل مروت کو بات کرنے سے روک دیا۔

وکیل شیر افضل مروت کو دلائل کے دوران خاموش کروا دیا گیا۔

وکیل شیر افضل مروت نے کہا کہ ٹھیک ہے، میں دلائل نہیں دیتا اور کمرۂ عدالت سے باہر نکل گئے۔

وارنٹِ معطل کرنے کی استدعا

اس سے قبل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد میں سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے وکلاء نے وارنٹِ گرفتاری معطل کرنے کی استدعا کر دی، عدالت نے 12 بجے تک سماعت میں وقفہ کر دیا تھا۔

توشہ خانہ کیس کی سماعت کرتے ہوئے ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال نے ریمارکس میں کہا کہ عمران خان سرینڈر کر دیں تو آئی جی کو ان کی گرفتاری سے روک دیں گے۔

چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی لیگل ٹیم میں شامل وکلاء فیصل چوہدری، گوہر علی خان اور خواجہ حارث عدالت میں موجود ہیں۔

عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے اسلام آباد ہائی کورٹ کا وارنٹ برقرار رکھنے کا فیصلہ پڑھ کر سنایا۔

جج نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ اب تک عدالتی طریقہ کار سے سیشن عدالت کو نہیں ملا۔

ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال نے سوال کیا کہ آپ کو کیا لگتا ہے کیس قابلِ سماعت ہونے سے متعلق الیکشن کمیشن کو نوٹس دینا چاہیے؟ مسئلہ ایک سیکنڈ میں حل ہو سکتا ہے، عمران خان کہاں ہیں؟ عمران خان ذاتی حیثیت میں عدالت میں کہاں پیش ہوئے ہیں؟ انڈر ٹیکنگ کا کانسیپٹ کہاں پر ہے؟

وکیل خواجہ حارث نے سوال کیا کہ کیا ضروری ہے کہ عمران خان کو گرفتار کر کے ہی عدالت لائیں؟

جج نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ عمران خان عدالت آ جائیں، وہ کیوں نہیں آ رہے؟ وجہ کیا ہے؟ قانون کے مطابق عمران خان نے پولیس کو اسسٹ کرنا ہے رزسٹ نہیں کرنا، عمران خان نے رزسٹ کر کے سین کو بنایا، اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے میں یہ بھی لکھا ہے کہ غیر قانونی عمل سے آرڈر اثر انداز نہیں ہونا چاہیے، اگر قابلِ ضمانت وارنٹ ہوتے تو مسئلہ ہی کچھ نہ ہوتا، وارنٹ ناقابلِ ضمانت ہیں۔

وکیل خواجہ حارث نے اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ پڑھ کر سنایا۔

جج نے کہا کہ آپ جو دلائل دے رہے ہیں وہ قابلِ ضمانت وارنٹِ گرفتاری کے مطابق ہیں، کیس میں شیوریٹی تو آئی ہوئی ہے۔

عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ کیا یہی سختی رکھنی ہے کہ عمران خان کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ جاری رکھنے ہیں۔

جج نے کہا کہ وارنٹِ گرفتاری عمران خان کی ذاتی حیثیت میں پیشی کے لیے ہیں۔

عمران خان کے وکیل نے کہا کہ عمران خان تو خود کہہ رہے ہیں کہ میں عدالت آنا چاہتا ہوں، عمران خان استثنیٰ نہیں مانگ رہے، عدالت آنا چاہتے ہیں، کیا اس وقت ناقابلِ ضمانت وارنٹِ گرفتاری کے فیصلے کی ضرورت ہے؟ آپ کے پاس 2 آپشنز موجود ہیں، درخواست گزار آنا چاہتے ہیں، پہلا آپشن آپ انڈر ٹیکنگ کی درخواست منظور کر کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ منسوخ کر دیں، دوسرا آپشن آپ شیوریٹی لے کر قابلِ ضمانت وارنٹِ گرفتاری جاری کریں، عمران خان انڈر ٹیکنگ دینا چاہتے ہیں کہ 18 مارچ کو سیشن عدالت میں پیش ہوں گے۔

اس کے ساتھ ہی عمران خان کے وکلاء نے عدالت سے وارنٹِ گرفتاری معطل کرنے کی استدعا کر دی۔

’’دنیا کا سب سے مہنگا وارنٹ عمران خان کا بن گیا‘‘

جج نے ریمارکس میں کہا کہ الیکشن کمیشن کو نوٹس بھی دیتے ہیں۔

وکیل خواجہ حارث نے استدعا کی کہ آپ نوٹس دے کر الیکشن کمیشن کو آج ہی بلا لیں۔

جج نے سوال کیا کہ لاہور زمان پارک میں صورتِ حال خراب کیوں ہے؟ پاکستان کا ہی نہیں دنیا کا سب سے مہنگا وارنٹ عمران خان کا بن گیا ہے، حکومت کے کروڑوں روپے اس وارنٹ پر لگے ہیں، قانون کے مطابق ناقابلِ ضمانت وارنٹ پاکستان کے کسی بھی شہر میں قابلِ اطلاق ہو سکتا ہے۔

وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ حکومت سیاسی انتقام بنا رہی، گرفتاریاں ہوئی ہیں، زیادتی ہوئی ہے، زمان پارک میں جو ہو رہا وہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔

’’عمران اب بھی سرینڈر کر دیں تو میں آرڈر کر دیتا ہوں کہ انہیں گرفتار نہ کریں‘‘

جج نے کہا کہ قانون کے مطابق عمران خان کو سیدھا عدالت لانا تھا، انہیں عدالتی پیشی پر ہراساں کرنا ممکن ہی نہیں ہے، غریب ملک ہے، کروڑوں روپے وارنٹ پر خرچہ ہوا جس کی ضرورت نہیں تھی، عمران خان اب بھی سرینڈر کر دیں تو میں آئی جی کو آرڈر کر دیتا ہوں کہ ان کو گرفتار نہ کریں، عمران خان کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ میں تبدیلی کیا ہو گی۔

وکیل خواجہ حارث نے استدعا کی کہ عمران خان انڈر ٹیکنگ دے رہے ہیں، وارنٹ معطل کر دیں۔

جج نے استفسار کیا کہ قانون کے مطابق وارنٹِ گرفتاری جاری ہوئے، مزاحمت کیوں ہوئی؟ عوام کے پیسے ہیں، زیادہ سے زیادہ پُر امن احتجاج کر لیتے۔

وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ حکومت پر کیس کرنا چاہیے کہ کروڑوں روپے ضائع کر دیے۔

جج نے کہا کہ فوجداری کارروائی میں عموماً ملزمان ذاتی حیثیت میں عدالت میں پیش ہوتے ہیں، ملزمان عدالت کے سامنے پیش ہوتے ہیں اور وارنٹ ختم ہو جاتے ہیں، ایسا نہیں کہ وارنٹ کی تاریخ 18 مارچ ہے اور پولیس ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائے۔

وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ انڈر ٹیکنگ کے بعد وارنٹِ گرفتاری جاری کرنے کی ضرورت نہیں۔

جج نے کہا کہ بارش ہے، سیکریٹریٹ پولیس کو الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کرنے کا کہہ دیتا ہوں۔

12 بجے تک سماعت میں وقفہ

ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال نے عدالتی عملے کو ہدایات دیں کہ 12 بجے تک الیکشن کمیشن کو کہیں کہ عدالت پہنچیں۔

اس کے ساتھ ہی ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال نے 12 بجے تک سماعت میں وقفہ کر دیا۔

قومی خبریں سے مزید