ڈاکٹر عصمت ناز
خواتین اپنے اندر بے پناہ ہمت، حوصلہ ،طاقت اور برداشت رکھتی ہیں اور یہ ایک مسلمہ حقیقت بھی ہے، جس کا اعتراف سب ہی کرتے ہیں۔ بلخصوص بچے کی پیدائش اس کو پالنا صرف صنف نازک کا ہی اعزاز ہے ،مگر اس بات سے بھی انکا ر ممکن نہیں ہے کہ کچھ معاملات میں جیسا کہ گھریلو معاملات سسرال کے ساتھ تعلقات، دوسروں کے ساتھ حسد اور رقابت اور پھر اوپر لگائے جانے والے بے جا الزامات کے علاوہ اہل محلہ وغیرہ کے ساتھ معاملات میں بھی اس کی قوت برداشت جواب دے جاتی ہے اور سب سے بڑھ کر تو یہ اگر بہو پسند نہیں ہے تو برداشت کرتے کرتے انسان کے صبر کا پیمانہ جب لبریز ہو جاتا ہے تو اس میں منفی قوت عود کر آتی ہے اور چیخنا،چلانا معاشرے میں بگاڑ پیدا کرتا ہے، جس سے امن واما ن اورسکون کے بجائے انتشار اور بے سکونی کی فضا پیدا ہوتی ہے اور ماحول معاشرہ اور خاندان عدم توازن کاشکا ر ہوجاتے ہیں۔ہما رامذہب اسلام بہت خوبصورت تعلیم دیتا ہے اور اس میں غصہ کو حرام اور ایک خوبصورت پیغام اعتدال کابھی ہے۔
جب ہم اعتدال کا راستہ چھوڑتے ہیں تو قوت برداشت ختم ہوتی ہے اور بے پناہ مسائل جنم لیتے ہیں ، انسان چاہتے ہوئے بھی ان سے چھٹکا را حاصل نہیں کرپاتا اور گھمبیر صورت حال سے بے چینی اور بے سکونی کبھی کبھار اسے زندگی سے اس حد تک بیزار کر دیتی ہے کہ وہ ہر چیز سےاکتا جاتی ہیں۔ آج کل کی خواتین میں عدم برداشت بالکل ہی ختم ہوتا جا رہا ہے۔
جب یہ اپنے گھر میں دیکھتی ہیں کہ ان کی ساس، دیورانی ،جٹھانی ،نند، بھابھی یا بہن نے ان کے ساتھ ناانصافی کی ہے کیا کچھ برا کیا ،کسی بات پر تنز کیا ہے، سختی سے بات کرلیں تو فوراً آپے سے باہر ہو جاتی ہیں اور پوری کوشش ہوتی ہے کہ ایک بات کے جواب میں دس باتیں سنادیں اور اس طر ح دل کی بھڑاس نکال کر وہ سمجھتی ہیں کہ انہوں نے خوب بدلہ لیا ہے بلکہ بڑے فخر یہ بتاتی ہیں کہ میں نے تو فلاں کو ایسا منہ توڑ جواب دیا ،میں کیوں بھلا چپ رہتی۔
مندرجہ بالا رویے جہاں اس سوچ کو ظاہر کرتے ہیں کہ ہم نے برداشت کرنا ترک کردیا ہے وہاں ہماری نام نہاد سوچ جو کہ ہر صورت میں دوسرے کو شرمندہ و رسوا کرنے اور نیچا دکھانے کی ہےاورہم ایسا کرنے میں جو ذہنی تسکین حاصل کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم برتر واعلیٰ ہو گئے ہیں تو یہ بالکل غلط، نا مناسب اور غیر اخلاقی رویہ ہے۔ جوابی کاروائی وتذلیل کرنے سے کہیں بہتر ہے کہ خاموشی اختیار کی جائے اور برداشت کیا جائے۔ یقین جانیں کہ ایسا کرنے سے فریق ثانی یا مدمقابل کو خود ہی شرمندگی اور ندامت کا احساس ہوگا۔
اعلٰی اقدار کو پروان چڑھانا ہے ۔شادی کے بعد آپ کو ضرور خود کو بدلنا پڑے گا اور اگر آپ لوگ چند سال دب کر خدمت کرکے اور جلی کٹی برداشت کرکے گزار دیں گی تو یقین کریں مستقبل میں آپ کی ہی حکمرانی ہوگی ۔اور ایسا اکثر سچ ہی ثابت ہوا ہے۔ والدین کو چاہیے کہ لڑکیوں کو لوگوں کے رویے برداشت کرنے اور حسن سلوک کا سبق دیا جائے، انہیں عدم برداشت کی طر ف راغب کیا جائے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم مثبت رویے اپنائیں ،اگریہی کام ہم اپنے گھر سے شروع کردیں تو یقیناً معاشرے میں ہمارے اردگر دتبدیلی کے آثار نظر آئیں گے۔ مسابقت تعلیم میں، ملازمت میں ،رہن سہن میں پہننے اوڑھنے میں، کھانے پینے میں ہی نہیں ہونی چاہیے بلکہ اخلاقیات وحسن عمل، شائستگی اور نرم خوئی میں بھی ہوگی تو ہم بدلیں گے۔
اگر بالکل برداشت نہ ہورہا ہو تو حدیث پاک کا مفہوم ذہن میں رکھیں کہ کھڑی ہیں تو بیٹھ جائیں ،پانی پی لیں اور پھر بھی کام نہ بنے تو لیٹ جائیں کتنی خوبصورت بات ہے، مگر افسوس ہم اس پر عمل بہت ہی کم کرتے ہیں۔ حالاں کہ خواتین معاشرتی سدھار کی سب سے بڑی ذمہ دار ہیں اگر یہی عدم برداشت پر مائل ہیں تو من حیث القوم ہم مسائل کی بھٹی میں جلتے رہیں گے اور اس کے برعکس اگر ہم نے برداشت کرنا سیکھ لیا تو ہر طرف امن وسکون کا راج ہوگا۔تو کوشش کیجیے تو کہ آج سے ہی برداشت کا سلوگن اپنائیں، خود بھی سکون میں رہیں اور ماحول کو بھی خوشگوار بنائیں۔