ردا فاطمہ
راحیل نےخضر کو چھپ کر پانی پیتا دیکھا تو حیران رہ گیا، کیوں کہ اُس نے صبح ہی اسےبتایا تھا کہ آج اس کا روزہ ہے۔ راحیل نے خضر کو آواز دیتے ہوئے کہا، ’’تم یہ کیا کر رہے ہو؟‘‘
خضر جو سب سے چھپ کر پانی پی رہا تھا، راحیل کی آواز سن کر وہ گھبرا کے پلٹا۔
’’تم پانی پی رہے ہو !‘‘ راحیل کے لہجے میں افسوس واضح تھا۔
’’نن نہیں تو ...میں وہ … میں تو بس یونہی کْلی کر رہا تھا‘‘خضرنے گھبراہٹ چھپاتے ہوئے جواب دیا۔
راحیل کو جسے اپنے سب سے اچھے دوست کے روزہ نہ رکھنے پر افسوس ہوا، وہیں جھوٹ بولنے پر بھی، وہ کچھ کہے بغیر وہاں سے چلا گیا۔ خضر سمجھ گیا کہ، راحیل اس کا جھوٹ جان گیا ہے۔ اسی لیے وہ پریشان ہو گیا کہ، اب مزید اس جھوٹ کو کیسے قائم رکھے یا سچ بتائے تو آخر کس طرح۔ وہ اسی پریشانی میں پورا دن راحیل سے بات نہیں کر سکا۔
گھر واپس آنے کے بعد بھی راحیل کا موڈ خراب تھا۔ وہ ایک کونے میں بیٹھا رو رہا تھا۔
’’ارے بیٹا، کیا بات ہے آپ کیوں رو رہے ہیں؟‘‘راحیل کی امی نے اس کے سر پے شفقت سے ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا۔
’’امی مجھے بہت دکھ ہے‘‘۔
’’کیوں کیا ہوا ہے میرے بیٹے کو؟‘‘ انہوں نےاس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا۔
’’ امی ،آج میں نے ہاف ٹائم کے بعد خضر کو پانی پیتے دیکھا، جب کہ صبح اس نے کہا تھا کہ، اس کا روزہ ہے۔ جب میں نے اس سے پوچھا تو اس نے مجھ سے جھوٹ بول دیا کہ، وہ کلی کر رہا ہے۔ امی، اللہ تعالیٰ جھوٹ بولنے والوں سے کتنا ناراض ہوتا ہے ناں! پھر رمضان کا مہینے میں یہ تو اور برا ہے، ہمیں برے کاموں کےسے بچانا چاہیے... زیادہ سے زیادہ نیکیاں کرنی چاہیں نا۔‘‘ راحیل نے دکھ سے تفصیل بتائی۔
امی اس کی طرف دیکھ کر آہستہ سے مسکرائیں اور کہنے لگیں کہ، ’’بیٹا، غلطیاں تو سب سے ہوتی ہیں، لیکن اس طرح افسوس کرنے سے کچھ نہیں ہوتا بلکہ غلطی کرنے والے کو پیار سے نیکی کا سبق سکھا کر برائی سے روکنا چاہیے۔ آپ کو بھی ایسا ہی کریں۔ خضر کو پیار سے رمضان کی فضیلت کے بارے میں بتائیں، اس کو نیکی اور برائی میں فرق سمجھائیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس کی بھلائی کے لئے اللہ سے ہر نماز میں دعاکریں .. چلیں اب اٹھیں شاباش نماز پڑھیں اور پھر دل سے دعا کریں‘‘۔
راحیل نے اگلے روز بھی خضر سے کوئی بات نہیں کی، وہ اب بھی اس سے خفا تھا۔ خضر سے راحیل کی یہ خاموشی برداشت نہیں ہو رہی تھی، وہ کئی بار اسے بہانے بہانے سے بلانے کی کوشش کر رہا تھا، لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا، تو خضر معافی مانگنے کا فیصلہ کر کے اس کی برابر والی کرسی پر بیٹھ گیا۔
’’راحیل‘‘خضر نے اسے پکارا تو وہ اس کی جانب متوجہ ہوگیا۔
’’میں نے تم سے جھوٹ کہا تھا، مجھے معاف کر دو پلیز‘‘خضر شرمندگی سے نظریں جھکائے معافی مانگ رہا تھا۔
راحیل نے اس کے ہاتھ پکڑکر کہا کہ، ’’دیکھو خضر اگر یہ معافی تم اس لئے مانگ رہے ہو کہ، میں تم سے بات کر لوں تو اس کا فائدہ نہیں اور اگر اس لئے مانگ رہے ہو کہ، تم واقعی جھوٹ بولنے اور روزہ توڑنے پر شرمندہ ہو تو مجھ سے نہیں اللہ سے معافی مانگو، کیوں کہ روزہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے رکھا جاتا ہے، روزہ صرف بھوک پیاس کا نام نہیں ہے، میرے دوست، یہ تمام برائیوں سے خود کو بچانے کا نام بھی ہے۔
اللہ تعالیٰ کو کیا ضرورت ہے کہ وہ اپنے بندے کو بھوکا پیاسا رکھے، جب وہ برائی سے دور ہی نہ ہو، پھر تم نے تو روزہ صرف اپنے گھر والوں کو مطمئن کرنے کے لیے رکھا۔ تمہیں اندازہ ہے اس کا کتنا سخت گناہ ہے، اللہ کتنا ناراض ہوگا۔ جب تم نے روزہ نہیں رکھا اور پھر جھوٹ بولا۔ یہ برکتوں والا مہینہ ہے، اس مہینے میں شیطان بند کردیئے جاتے ہیں، تاکہ مسلمان زیادہ سے زیادہ نیکیاں کما سکیں اور تم…‘‘
خضر کی آنکھوں سے آنسو نکل کر راحیل کی ہتھیلی پر گر رہے تھے۔ ’’تم جانتے ہو کتنے قسمت والے ہوتے ہیں، وہ لوگ جو اس مہینے کے طفیل برکتیں اور رحمتیں سمیٹتے ہیں۔ امی کہتی ہیں کہ، ہمیں اپنے روزوں کو ہر برائی سے پاک رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ تاکہ اللہ تعالیٰ ہم سے خوش ہو اور ہم سے راضی ہو جائے‘‘
’’راحیل میں بہت شرمندہ ہوں، اب میں اللہ تعالیٰ کو کیسے راضی کروں؟‘‘
’’اللہ سے خلوصِ دل سے رو رو کے معافی مانگو اور آئندہ روزہ گھر والوں کو دکھانے کے لیے نہیں بلکہ اللہ کی رضا کے لیے رکھنا‘‘ راحیل نے محبت سے خضر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’ہاں ٹھیک ہے راحیل میں سمجھ گیا ہوں، شکریہ میرے دوست میں کل سے روزے پوری ایمانداری سے رکھوں گا اور اللہ سے بھی معافی مانگوں گا‘‘ خضر نے پُرعزم لہجےمیں کہا‘‘۔
آج راحیل بہت خوش اور سکون محسوس کر رہا تھا۔ اس نے دعا کے ساتھ نیکی کا کام بھی کیا، اپنے دوست کی اصلاح کی۔