کراچی (نیوز ڈیسک)جیو نیوز کے پروگرام جرگہ میں گفتگو کرتے ہوئے جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سراج الحق نے کہا ہے کہ شہزادوں کے مسائل کچھ اور ، عوام نان شبینہ کے محتاج ہیں، عمران ہر ہفتےبیان دیتے ہم اور فوج ایک پیج پر ہیں، تکلیف تھی تو اس وقت بتاتے، باجوہ اور عمران اب ایک دوسرے پر اعتماد کو غلطی کہتے ہیں، 2018ء میں مجھ سمیت کئی سیاستدانوں کو اسمبلی سے باہر رکھا گیا، قوم اس سلیکشن کا خمیازہ آج تک بھگت رہی ہے ، پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم ایک ہی در کے غلام، دونوں پر ایک ہی ہاتھ ہے۔ جیو نیوز کے پروگرام ”جرگہ“کے آغاز میں میزبان سلیم صافی نے تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ آج کل پاکستان کی ساری سیاست عدالت پر ہورہی ہے یا پھر بند کمروں میں ہورہی ہیں۔ یا کسی حد تک عدالتی اقدامات یا تبصروں کی صورت میں ہورہی ہے۔لیکن ایک جماعت ایسی بھی ہے جو کہ براہ راست اس گیم کا حصہ نہیں ہے نہ وہ حکومت میں شامل ہے نہ عمران خان کے ساتھ ہے۔ انہوں نے اپنی انفرادی حیثیت برقرار رکھی ہوئی ہے وہ جماعت کیا کررہی ہے۔ ان کی کیا سوچ ہے ان دونوں فریقوں کے بارے میں یا ملک میں بحران چل رہا ہے اس کا ان کے پاس کیا حل ہے۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان، سراج الحق نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کچھ شہزادوں کے مسائل ہیں اور کچھ غریب عوام کے مسائل ہیں۔ آج پشاورمیں آٹا160 روپے ہے عام آدمی کا مسئلہ تو یہی ہے۔135روپے فی کلو چینی ہے،500 روپے فی کلو گھی ہے ، 1800 روپے فی کلو پتی ہے۔23کروڑ عوام جس کی اکثریت غریب ہے اور اس وقت 11کروڑ لوگ شرح غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔لوگ نان شبینہ کے محتاج ، سحری اور افطاری میں رو رہے ہیں ۔افطاری سے پہلے اتنے لوگ بازاروں میں آتے ہیں سبزی، پھلوں اور دیگر اشیاء کو دیکھتے ہیں لیکن ہاتھ نہیں اٹھاتے ہیں اس لئے کہ خریدنے کی قوت،صلاحیت ختم ہوگئی ہے۔ہم سوچتے ہیں فکر کرتے ہیں اس غریب آدمی کا کیا ہوگا۔شہزادوں کے مسائل کچھ اور ہیں، عوام نان شبینہ کے محتاج لوگوں کا مسئلہ یہی ہے کہ صبح ہم نے نکلنا ہے اور ٹرک کے پیچھے کھڑا ہونا ہے تو آٹا ملے گا یا نہیں۔عام آدمی کا صحیح مسئلہ غربت ، مہنگائی اور بے روزگاری ہے ۔ یہ جو عدالت کے یا پارلیمنٹ کے مسائل ہیں یہ وی آئی پی لوگوں یا سیاستدانوں کا مسئلہ ہے۔ہم حکومت میں نہیں ہیں ہمارے ساتھ جو ویلفیئر کے ادارے ہیں ایک سال کے دوران کوئی دو کروڑ41 لاکھ لوگوں کو ہم نے مدد کی۔ہم نے تین سال میں یہ کیا کہ جن کا کوئی نہیں ہوتا ان کے ساتھ ہم کھڑے ہوتے ہیں۔ہر لاوارث آدمی کی وارث حکومت ہوتی ہے لیکن یہاں یہی مسائل ہیں ۔عمران خان ہر ہفتے آئی ایس آئی کے دفتر جاتے تھے اور یہ بیان دیتے تھے کہ فوج پی ٹی آئی کے جھنڈے کے ساتھ کھڑی ہے ہم اور فوج ایک پیج پر ہیں۔اگر ان کو کوئی تکلیف تھی اس وقت بتاتے لیکن جس کے کندھوں پر بیٹھ کر آپ وہاں تک پہنچے ہیں۔ ان کی مرضی کے کب وہ تھک جاتے ہیں اور آپ کے نیچے بٹھاتے ہیں اور جیسے بٹھایا۔حکومت ان کی تھی وزیراعظم ان کا تھا صدران کا اب بھی ہے عدالتیں، نیب ان کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ ان کے ساتھ تھی۔ کیا چیز تھی جو عمران خان اور اس کی پارٹی کے ساتھ نہیں تھی لیکن ڈیلیور نہیں کرسکے ۔2018ء تو راز نہیں ہے خود باجوہ صاحب نے اعتراف کیا کہ ہم نے ان کو گلی کوچے سے اٹھا کر اقتدار میں پہنچایا۔ خود باجوہ صاحب کہتے ہیں کہ ہم نے اعتبار کرکے غلطی کی اور عمران خان بھی کہتے ہیں کہ میں بھی غلطی کی کہ باجوہ پر اعتماد کیا۔ صحیح بات یہ ہے کہ2018ء میں بہت بڑا ظلم ہوا۔یہ تو لوگ پاکستان سے محبت کرتے ہیں ورنہ انہوں نے وہ کام کیالوگوں کی اچھی نیت نہ ہوتی تو پاکستان کا نقشہ کچھ اور ہوتا۔محمود خان، مولانا فضل الرحمن ، اسفندیارولی، آفتاب شیر پاؤ اور مجھے اسمبلی سے باہر رکھا انہوں نے پورے ایک بیلٹ کو دیورا سے لگانے کی کوشش کی۔2018ء میں عوام کے ساتھ زیادتی ہوئی بہت بڑا ظلم ہوا کوئی الیکشن نہیں تھا سلیکشن ہوا تھااس کا خمیازہ آج پوری قوم بھگت رہی ہے۔جو گزشتہ پانچ چھ سال گزرے ہیں پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم کے ایجنڈے، طریقہ کار، کلچر میں کوئی فرق نہیں ہے پالیسیوں کے اعتبار سے دونوں یکساں ہیں۔پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی ایک دوسرے کی پالیسیوں کا تسلسل ہیں ۔عمران خان نے وزارت عظمیٰ سے فارغ ہونے کے بعد مجھے فون کیا کہ سائفر کے بارے میں بات کرنا چاہتا ہوں ۔میں نے کہ آپ سائفر کی نقل ہی بھیجیں ہم پڑھیں کہ حقائق ہیں یا نہیں لیکن آٹھ نو مہینے گزر گئے انہوں نے نہ مجھے نقل اور نہ اصل بھیجا۔ میں نے اس وقت بھی کہا تھا کہ انہوں نے کوئی ایسا کام نہیں کیا ہے جس کی بنیاد پر امریکا ان کے خلاف سازش کرے۔کشمیر کے مسئلے پر یہ ان کے ساتھ ایک ہیں خواجہ سرا کے مسئلے پر یہ سب ایک ہیں ۔ آئی ایم ایف کی غلامی کے مسئلے پر یہ سب ایک ہیں جس طرح وہ کہہ رہے ہیں اس طرح یہ جارہے ہیں۔زلمے خلیل زاد ہو یا کوئی اور امریکی سینیٹر ہوپاکستان کی سیاست میں ان کی مداخلت کی ہمیں مذمت کرنی چاہئے۔پاکستان ایٹمی قوت ہے اس خطے کی بہت بڑی ریاست ہے اس لئے امریکا ہمیشہ کوشش کرتا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن اپنی مٹھی میں رکھے ۔ دونوں پر ہاتھ رکھ کر وہ وقت ضرورت دونوں سے کام لیتا رہاماضی میں بھی اور اب بھی ان کی یہی کوشش ہے۔اگر پی ڈی ایم پر ان کا ہاتھ ہے تو پی ٹی آئی پران لوگوں کا ہاتھ ہے۔ہمارا بیانیہ یہی ہے کہ دونوں ایک جیسے ہیں اور دونوں ایک ہی در کے غلام ہیں ایک ہی ملک سے ڈکٹیشن لینے والے ہیں۔جماعت اسلامی نے کبھی بھی مرکزی حکومت میں شرکت نہیں کی ۔مولانا فضل الرحمن اس وقت ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے پکے پکے ساتھی اورامام ہیں پی ڈی ایم کے صدر ہیں۔ہم چاہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ،عدلیہ اور الیکشن کمیشن غیر جانبدار رہیں ان کا وزن کسی ایک پارٹی کے پلڑے میں نہ پڑے۔آرمی چیف، چیف جسٹس، الیکشن کمشنر کو تنخواہ نہ پی ٹی آئی دیتی ہے نہ مسلم لیگ نہ پیپلز پارٹی قوم دیتی ہے۔اس بار جو عدلیہ میں یہ کیس گیا ہے یہ تو خود سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے سوموٹو ایکشن لیا ہے ۔جیسے ہی یہ مسئلہ آیا جماعت اسلامی کا پہلے دن سے یہ موقف تھاکہ فل کورٹ بلایا جائے اس پر پوری قوم کا اعتماد ہوگا۔یہ بہت بری بات ہے کہ میرا جج زندہ باداور آپ کا جج مردہ بادیہ نعرے ابھی لوگوں نے شروع کئے ہیں۔دو صوبوں میں الیکشن ہوں اور دو میں نہ ہوں یہ قوم کے ساتھ مذاق ہوگا۔