• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بلال حسین

فاختہ : بھولُوبھیّا! مجھے ناریل کے کچھ چھلکے دیجئے گا۔ ’’بھولُو دُنبے “ کی ناریل شاپ جنگل میں بہت مشہور تھی سب ہی جانور اور پرندے گرمیوں میں یہیں آ کر ناریل کے ٹھنڈے پانی سے اپنی پیاس بجھاتے تھے۔ اس وقت بھی کافی جانور بھولُو کی شاپ پر اسٹرا (Straw) لگائے ناریل پانی پینے میں مصروف تھے۔

فاختہ کی آواز پر شرارتی طوطے نے مُڑ کے اس کی طرف دیکھا اور طنز کرتے ہوئے کہا ،’’کیا آج کھانے کو کچھ نہیں مِلا جو ناریل کے چھلکے مانگنے آگئیں؟‘‘

فاختہ نے بُرا منائے بغیر جواب دیا ،’’ارے نہیں طوطے بھائی! کھانا تو کھاچکی ہوں ، ان چھلکوں سے آہستہ آہستہ بال نکالوں گی، تاکہ اپنے لئے ایک اچھا سا گھر بناسکوں‘‘۔

طوطے نے حیرانی سے پوچھا ،خیریت؟ تمہیں بڑی فکر ہورہی ہے نیا گھر بنانے کی۔‘‘

فاختہ نے شرارتی طوطے کو سمجھاتے ہوئے کہا،’’ہاں بھائی! تمہیں تو پتا ہے اگلا مو سم بارشوںں کا ہے اور اوپر سے موسمیات والوں نے تیزبارشوں کی بھی پیشین گوئی کر رکھی ہے ، تو بھلا اسی میں ہے کہ اپنے لئے مضبوط سا گھر بنالوں، تاکہ آنے والے دِنوں میں پریشانی نہ ہو ، میری مانو تو تم بھی سیر سپاٹوں کو چھوڑو اور اپنا گھر بنانے میں لگ جاؤ، تاکہ اگلے مہینے تک ایک مضبوط سا گھر تیار ہوجائے۔‘‘

’’ فاختہ بی بی! سردی اور بارش نے کون سا کل ہی آجانا ہے؟ میری مانو! یہی تو دن ہیں گھومنے پھرنے اور مزے اڑانےکے ، باقی آگے تمہاری مرضی ۔‘‘یہ کہہ کر طوطا پُھر سے اُڑ گیا۔

’’آہ نادان بھائی‘‘فاختہ نے طوطے کی بےوقوفی پر افسوس کرتے ہوئے کہا اور اپنے کام میں لگ گئی۔

فاختہ اپنے گھر میں کمبل اوڑھے بیٹھی کہانیوں کی کتاب پڑھ رہی تھی جب اسے کسی کی آواز سنائی دی : فاختہ بہن! فاختہ بہن! مجھے اپنے گھر میں جگہ دے دو ، بہت تیز بارش ہور رہی ہے‘‘۔فاختہ نے باہر آکر دیکھا تو طوطا بارش میں بھیگا ، ٹھنڈ کے مارے بُری طرح کانپ رہا تھا۔

فاختہ نے طوطے کو جھاڑ پلاتے ہوئے کہا،’’میں نے دن رات محنت کرکے گھر بنایا ہے ، تمہیں جگہ دے دوں تو خود کہاں رہوں گی؟ تم گرمیوں کے موسم میں کہاں تھے! اپنے لئے گھر نہیں بناسکتے تھے؟‘‘

طوطے نے مسکین سی صورت بناتے ہوئے کہا ،مجھے بہت سردی لگ رہی ہے اور بارش ہے کہ رُکنے کا نام ہی نہیں لے رہی ، اس طرح تو میں بیمار پڑجاؤں گا۔ پلیز! میری مدد کرو!

مگر فاختہ نے اس کی ایک نہ سُنی ’’ تم جاسکتے ہو ‘‘کہتے ہوئے دروازہ بند کردیا۔

فاختہ کا انکار سُن کر طوطے کے تو اپنے ہی “ طوطے اُڑ گئے “ اور اسے پوری رات بارش میں کانپتے ہوئے ہی گزارنی پڑی۔ اب اس کو احساس ہوچکا تھا کہ یہ سب میری سُستی کا نتیجہ ہے۔ کاش! گھومنے پھرنے کے بجائے میں بھی گھونسلہ بنا لیتا۔

پیارے بچّو! امتحانات کی تیاری پہلے سے کرنا چاہئے اگر ہم کل کل کرتے رہیں گے تو یاد رکھیں کہ ’’ کل‘‘کبھی نہیں آتی ، یہ بات بالکل نہیں سوچنی کہ کچھ نہیں ہوتا دیکھی جائے گی! ورنہ طوطے کی طرح آپ کو بھی پریشانی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔