کراچی (نیوز ڈیسک) امریکی انٹیلی جنس کی جانب سے تیار کیے جانے والے عالمی حالات کے حوالے سے خفیہ جائزہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ترقی پذیر ممالک کی ایک بڑی تعداد نہ صرف امریکا، روس اور چین کے درمیان جاری کشیدگی سے بچنے اور دور رہنے کی کوششوں میں مصروف ہیں بلکہ ان تینوں ملکوں کے درمیان کشیدگی سے فائدہ اٹھانے کی کوششیں بھی کر رہی ہیں۔ یہ انکشاف حال ہی میں لیک ہونے والی خفیہ دستاویزات کے مطالعے کے نتیجے میں سامنے آیا ہے۔
ڈسکارڈ مینجمنٹ سسٹم نامی پلیٹ فارم کے ذریعے انٹرنیٹ پر لیک کی جانے والی انتہائی خفیہ دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ ابھرتی ہوئی ترقی پذیر طاقتیں اپنے طور پر اس بات کا جائزہ لی رہی ہیں کہ جس وقت امریکا دنیا کی واحد سپر پاور قوت نہیں رہے گا تو انہیں کس کے ساتھ اتحاد قائم کرنا چاہئے۔
ان ترقی پذیر ممالک میں بھارت، برازیل، پاکستان اور مصر جیسے ممالک شامل ہیں۔
لیک ہونے والی انٹیلی جنس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ امریکی صدر بائیڈن کو مطلق العنانیت کے پھیلاؤ کو روکنے، روس کی صورت میں سامنے آنے والی بغاوت کو کچلنے، اپنی سرحدوں کو محفوظ بنانے اور چین کا مقابلہ کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے کیونکہ خطے کی با اثر طاقتیں امریکا سے دوری اختیار کیے ہوئے ہیں۔
واشنگٹن پوسٹ کی جانب سے اس رپورٹ کے مندرجات پر وائٹ ہاؤس سے موقف معلوم کرنے کی کوشش کی گئی تاہم جواب نہیں دیا گیا۔
دستاویزات کا ایک بڑا حصہ امریکی محکمہ دفاع سے لیک ہوا تھا، تاہم محکمہ دفاع نے بھی واشنگٹن پوسٹ کے سوالوں کا جواب دینے سے انکار کر دیا۔
کارنیگی انڈوومنٹ فار انٹرنیشنل پیس کے محقق متایس اسپیکٹر کا کہنا ہے کہ ترقی پذیر ممالک فی الحال اپنی ترجیحات پر غور اور انہیں تبدیل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں.
امریکا کو اس وقت روس کی صورت میں ایک نئے مد مقابل کھلاڑی کا سامنا ہے، امریکا کو چین کی طرف معاشی اور فوجی بحران کا سامنا ہے، سونے پہ سہاگہ یہ کہ مغربی دباؤ کا روسی صدر ولادیمیر پوتن پر اثر نہیں ہو رہا۔ انہوں نے کہا کہ یہ واضح نہیں کہ آئندہ دس سال میں کون کہاں ہوگا لہٰذا ترقی پذیر ممالک اپنا اپنا انتظام کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
واضح طور پر پاکستان میں دیکھیں تو اس ملک نے گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد امریکا سے معیشت اور سلامتی کے نام پر اربوں ڈالرز وصول کیے لیکن اب یہ ملک چائنیز سرمایہ کاری اور قرضہ جات پر انحصار کر رہا ہے۔
لیک ہونے والی ایک دستاویز کے مطابق، وزیر مملکت برائے خارجہ حنا ربانی کھر نے مارچ میں کہا تھا کہ چین اور امریکا کے درمیان پاکستان اب درمیانہ راستہ اختیار نہیں کر سکتا۔
’’پاکستان کیلئے مشکل انتخاب‘‘ کے عنوان سے ایک میمو کے مطابق، حنا ربانی نے خبردار کیا کہ اسلام آباد کو چاہئے کہ وہ مغرب کو خوش کرنے کی ظاہری کوشش بند کر دے، کیونکہ امریکا کے ساتھ پاکستان کی شراکت برقرار رکھنے کی جبلت کی قیمت چین کے ساتھ اصل اسٹریٹجک پارٹنرشپ کی صورت میں ادا کرنا ہوگی۔
لیک ہونے والی امریکی خفیہ دستاویز میں یہ نہیں بتایا گیا کہ امریکا کو حنا ربانی کھر کا یہ میمو کیسے ملا۔ 17؍ فروری کی ایک اور دستاویز بھی ہے جس میں وزیراعظم شہباز شریف ایک ماتحت کے ساتھ یوکرین تنازع کے حوالے سے اقوام متحدہ میں ہونے والی ووٹنگ پر بات کر رہے ہیں اور اس بات کا جائزہ لے رہے ہیں کہ روس کیخلاف مغرب کی نئی پابندیاں کیا ہوں گی
۔ بات چیت میں وزیراعظم کو مشورہ دیا گیا کہ اگر ووٹنگ کی حمایت کی گئی تو پاکستان کا موقف واضح ہو جائے گا کہ وہ کس کے ساتھ ہے کیونکہ اس سے قبل ہونے والی ووٹنگ میں پاکستان نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا تھا.
پاکستان اس پوزیشن میں ہے کہ روس کے ساتھ تجارت اور توانائی کے حوالے سے معاہدے کر سکتا ہے اور مغرب کی قرارداد میں روس کیخلاف ووٹ دیا گیا تو پاک روس تعلقات کو نقصان ہوگا۔ اس کے بعد جب 23؍ فروری کو اقوام متحدہ میں یہ قرارداد پیش ہوئی تو پاکستان اُن 32؍ ممالک میں شامل تھا جنہوں نے ووٹ نہیں دیا۔
لیک ہونے والی دستاویز کے حوالے سے جب پاکستانی عہدیداروں سے موقف کیلئے کہا گیا تو انہوں نے انکار کردیا۔ اگرچہ یورپ اور مشرقی ایشیا میں موجود امریکی اتحادیوں نے یوکرین مہم کیلئے بائیڈن کے اقدامات کی حمایت کی ہے اور یوکرین کو اسلحہ اور دفاعی ساز و سامان دیا ہے لیکن دیگر ملکوں سے واشنگٹن کو مزاحمت ہی ملی ہے۔
گزشتہ سال جب امریکی وزیر خارجہ بلنکن نے جنوبی افریقہ کا دورہ کیا تھا تو اس وقت جنوبی افریقی حکام نے واضح کر دیا تھا کہ انہیں ایسا کوئی فیصلہ کرنے کیلئے دھونس اور دھمکی سے مرعوب نہیں کیا جا سکتا جو ملک کیلئے مناسب نہیں۔
یاد رہے کہ جنوبی افریقہ نے حال ہی میں روس کیساتھ فوجی مشقیں بھی کی ہیں جبکہ روسی صدر پوتن کی گرفتاری کیلئے عالمی فوجداری عدالت میں مدد و حمایت سے بھی انکار کر دیا ہے۔ اسی طرح لیک ہونے والی دستاویزات کے جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ بھارت بھی واشنگٹن اور ماسکو میں سے کسی ایک کی طرف داری سے اجتناب کر رہا ہے۔
یہ بات 22؍ فروری کو بھارتی قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول اور ان کے روسی ہم منصب نکولائی پتروشیف کے درمیان ہونے والی بات چیت سے واضح ہو جاتی ہے۔
بات چیت میں اجیت ڈوول نے پتروشیف کو یقین دہانی کرائی کہ بھارت کثیر الجہتی معاملات میں روس کی حمایت جاری رکھے گا اور کوشش کرے گا کہ یوکرین جنگ کا معاملہ جی ٹوئنٹی کے اجلاس میں پیش نہ ہو۔
ایک ہفتے بعد جب دہلی میں جی ٹوئنٹی کا اجلاس ہوا تو اس میں یوکرین کے معاملے پر شرکاء میں عدم اتفاق پایا گیا جس سے عالمی چیلنجز کے حوالے سے جو ٹوئنٹی ممالک اتفاق رائے پر مبنی بیان نہ جاری کر پائے۔
ڈوول کے حوالے سے لیک ہونے والی دستاویز سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ بھارت روس کے معاملے پر مغرب کے دباؤ کا مقابلہ کر رہا ہے، اگرچہ بھارت روس کی جنگ کی حمایت نہیں کرتا لیکن گزشتہ کئی دہائیوں سے بھارت روس کی حمایت پر انحصار کرتا رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ بھارت کے پاس روس کے ساتھ توانائی اور معاشی تعلقات مستحکم رکھنے کے سوا اور کوئی راستہ نہیں ۔ ایسے میں، وسط ایشیائی ممالک اس صورتحال سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں اور امرایکا، چین اور یورپ سے زیادہ سے زیادہ فائدے اٹھا رہے ہیں کیونکہ یہ ممالک روس پر کم از کم انحصار چاہتے ہیں۔
لیک ہونے والی دستاویز میں خصوصی طور رپر قازقستان کا نام لیا گیا ہے جو توانائی اور تجارت کے شعبہ جات میں نئے راستے تلاش کر رہا ہے۔ لاطینی امریکا میں دیکھیں تو برازیل کے صدر لولا ڈی سلوا ملک کو ایک نئی طاقت بنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں کیونکہ ان کے پیش رو بولسونارو نے ملک کو تنہائی کی طرف دھکیل دیا تھا۔
برازیلین صدر ایک ثالث کا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں اور اسی لیے انہوں نے اپریل میں چین کا دورہ کرکے صدر شی جن پنگ سے بھی ملاقات کی تھی۔ انہوں نے یہ تک کہہ دیا تھا کہ نیٹو ممالک یوکرین تنازع بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ان کے اس بیان سے نیٹو حکام ناراض بھی ہوئے تھے۔ لیک ہونے والی امریکی خفیہ دستاویز میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ لاطینی امریکی ملک ارجنٹائن نے میکسیکو اور برازیل کے ساتھ مل کر ایک نیا اتحاد بنانے کی کوشش کی ہے تاکہ امریکا، روس، چین اوریورپی یونین سے مذاکرات کرتے وقت متحدہ طاقت بن کر بات کی جا سکے۔ مصر بھی اپنی شراکت داریوں کے حوالے سے نئے راستے تلاش کر رہا ہے۔
حال ہی میں اس نے روس کو چالیس ہزار راکٹ فراہم کرنے کی کوشش کی لیکن بالآخر امریکی دباؤ کے آگے جھکاؤ اختیار کیا۔ اسپیکٹر کا کہنا تھا کہ اگرچہ بائیڈن انتظامیہ مختلف ملکوں کو ڈرانے کی بجائے مذاکرات کے ذریعے رام کرنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن اس کی یہ کوششیں شاید سود مند ثابت نہ ہوں۔