1980ء سے 1990ء کی دہائی میں پنجابی فلموں پر حکمرانی کرتے ہوئے پنجابی فلموں کی ملکہ کہلانے والی انجمن ملتان کے گائوں ’’جکو والا‘‘ میں 24 جولائی 1955ء میں پیدا ہوئیں۔ والدین نے ان کا نام انجم شاہین رکھا۔ زمانہ طالب علمی میں وہ اپنی ہم جماعت طالبات میں اپنے حُسن اور دراز قد و گیسو کی بناء پر ایک ہیروئن دکھائی دیتی تھیں، وہیں قدرت نے ان کو خُوب صورت آواز بھی عطا کی تھی۔
انجم شاہین کی نانی جنہیں موسیقی سے خاصا لگاؤ تھا، وہیں ان کی نواسی انجم شاہین جوان کے پاس ہی رہا کرتی تھیں، کو بھی انہیں دیکھ کر نغمہ سرائی کا شوق پیدا ہوا، جب ان کی نانی نے اپنی نواسی کو گاتے سُنا تو انہیں گائیکی کی باقاعدہ تربیت کے لیے ’’شام چوراسی‘‘ گھرانے کے استاد اختر حسین کی خدمات حاصل کی گئیں۔ بعد از جب وہ ملتان سے لاہور منتقل ہو گئیں ، جہاں1973ء میں اردو فلم ’’صورت‘‘ کے ذریعے اپنے فنی سفر کا آغاز کیا۔
انجم شاہین کے پڑوس میں فلم اسٹار علی زیب کی رہائش تھی ۔ علی زیب کی بیٹی کی شادی کے موقع پرانجم شاہین اپنی دیگر دوستوں کے ہمراہ لڈیاں ڈال رہی تھیں، جہاں فلم انڈسٹری کی نامور شخصیات بھی جلوہ افروز تھیں، ان میں نامور ہدایت کار شباب کیرانوی بھی شامل تھے، جب انہوں نے انجم شاہین کو دیکھا تو محمد علی سے کہا کہ مجھے میری فلم ’’وعدے کی زنجیر‘‘ کے لیے ہیروئن مل گئی ہے اور یہ لمبے قد والی لڑکی کون ہے؟ میں نے اسے کاسٹ کرنا ہے اور یُوں انجم شاہین سے وہ انجمن بن گئیں۔ انہیں یہ نام شباب کیرانوی نے دیا۔
فلم وعدے کی زنجیر 1979ء میں ریلیز ہوئی ، جس نے شان دار کام یابی حاصل کی، جب کہ شباب کیرانوی کے ساتھ ان کی دیگر فلموں میں آپ سے کیا پردہ، دو راستے، آئینہ اور زندگی شامل ہیں، اس کے علاوہ انہوں نے ہدایت کارہ سنگیتا کی فلم ’’آج اور ابھی‘‘ میں بھی کام کیا ، لیکن یہ فلمیں کوئی خاص کامیابیاں حاصل نہ کر سکیں۔ 1980ء کے دوران3پنجابی فلموں میں کام کیا، ان میں شیر خان، اور چن وریام میں مرکزی کردار، جب کہ فلم ’’سالا صاحب‘‘ میں معاون اداکارہ کے طور پر سامنے آئیں، تو ان تینوں ہی فلموں نے ڈائمنڈ جوبلی کی، جب کہ ہدایت کار پر ویز ملک کی فلم ’’رشتہ‘‘ میں تانگا چلانے والی لڑکی کے جان دار کردار کو نبھایا۔
جس میں انجمن نے بڑی ہی متاثر کن اداکاری کی۔ اسی طرح ان کی فلمی زندگی کی ٹرننگ فلم اقبال کاشمیری کی سردار ثابت ہوئی، جس میں انجمن نے ایک اندھی لڑکی کا کردار کیا، جو کہ خاصا مشکل تھا،مگر انہوں نے کمال مہارت سے پرفارم کرتے ہوئے ثابت کر دیا کہ وہ ایک مکمل و کام یاب فن کارہ ہیں۔ پنجابی باکس آفس پر فلم سازوں نے انجمن کی صورت میں ایک ایسی فن کارہ کو متعارف کروایا، جس نے اپنی خُوب صورت پرفارمنس کے ذریعے پنجابی باکس آفس پر کامیابیوں کے نئے ریکارڈ قائم کیے۔
یُوں وہ اپنے دور کی باکس آفس اسٹار بن گئیں، وہیں سب سے زیادہ معاوضہ لینے والی اداکارہ بھی تھیں۔ 1981ء کا سال انجمن کی فنی زندگی کا کام یاب ترین سال تھا، جب ان کی پانچ فلمیں بہ یک وقت سینما گھروں کی زینت بنیں۔ ان میں شیر خان، اور چن وریام نے اک ایسا ریکارڈ قائم کیا جو کسی دوسری اداکارائوں کو حاصل نہیں ہوا ۔ چن وریام اور شیر خان میں سلطان راہی کے ساتھ ان کی جوڑی کو فلم بینوں نے زبردست پسند کیا اور یوں ان کی مشترکہ فلموں کی تعداد 128ہوگئی۔
جب کہ سلطان راہی اور انجمن کی بہ طور ہیرو ہیروئین107 فلمیں ہیں۔ اس جوڑی کو عروج بام چن وریام، جس کے ہدایت کار جہانگیر قیصر اور یونس ملک کی فلم شیر خان نے بخشا۔ انجمن نے سلطان راہی سمیت تقریباً ہر اداکار کے ساتھ کام کیا، جن میں محمد علی، وحید مراد، ندیم ، شاہد، یوسف خان، ننھا، علی اعجاز، اظہار قاضی، جاوید شیخ، غلام محی الدین اور اقبال حسن جیسے سپر اسٹارزشامل ہیں، وہیں انہوں نے شان اور سعود جیسے ینگ ہیروزکے مقابل ہیروئن کے کردار بہ خُوبی اداکئے۔ انجمن کے رقص کی بات کی جائے تو جب سینما اسکرین پر انجمن کی ’’ لڈی ہے جمالو‘‘ پر پر فارم کرتی نظر آتی ہیں، تو سینما ہال میں موجود شائقین فلم جھوم اٹھتے۔
انجمن جہاں ایک بہترین کردار نگاری کرتی نظر آتی ہیں، وہیں انہیں معیاری رقص پر عبور حاصل رہاہے، جس کی باقاعدہ تربیت انجمن نے پٹیالہ گھرانے کے ماسٹر سجاد سے حاصل کی تھی۔ لازوال سپر ہٹ گانے جن میں انجمن کا اندازِ رقص ہو ملکہ ترنم نو ر جہاں کی گائیگی، جب شائقین کی سماعتوں سے ٹکراتے تھے، تو ہر طرف جلترنگ وساز بجنے لگنے تھے۔ ایک موقع پر انجمن نے کہا تھا کہ میری خوش نصیبی ہے کہ میڈم نور جہاں مجھ پر فلمائے گئے گیتوں پر بہت خوش ہوتی تھیں اور مجھے پسند کرتی تھیں اور انہیں جب بھی یہ پتا چلتا کہ ان کا گایا ہوا گانا انجمن پر پکچرائز ہو رہاہے تو بہت خوش ہو جایا کرتی تھیں۔
پنجابی فلموں میں زیادہ تر کہانی کا مرکزی کردار مرد اداکار ہوا کرتا ہے اور یُوں ایک طرح کی فلموں سے فلم بین یکسانیت کا شکار ہوجایا کرتے تھے۔ جب کہ اداکارائیں صرف گانوں میں رقص کرنے یا پھر ہیرو کے ساتھ رومانی مکالمے کرتی نظر آتی تھیں۔ ایسے میں انجمن نے ایکشن فلموں میں تانگے والی، کار سواری، موٹر سائیکل سواری سمیت کئی خطر ناک مناظر خود پر عکس بند کراتے ہوئے پنجابی فلموں میں ایک نئی روایت قائم کی۔ اس لیے انجمن کو پاکستان کی پہلی مکمل ایکشن والے کردار ادا کرنے والی اداکارہ کہا جا سکتا ہے۔
فلم انسانیت کے دشمن میں انہوں نے ایک زیر زمین مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث سربراہ کا کردار انتہائی خُوب صورتی سے اداکیا، جہاں ان کے پرستاروں نے صرف اداکاری و رقص کو پسند کیا، وہیں اس کی ایکشن کو بھی بے حد سراہا۔1983ء میں ہدایت کار الطاف حسین کی پنجابی فلم ’’صاحب جی‘‘ 1985ء میں فلم نکاح اور اسی طرح فلم مہندی میں اپنی اعلیٰ کردار نگاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ثابت کیا کہ ان کے مقابلے کی کوئی دوسری فن کارہ نہیں ہے۔
مجموعی طور پر اپنے 30سالہ فنی کیریئر میں انجمن کی ریلیز شدہ فلموں کی تعداد172ہے، جن میں13فلموں نے ڈائمنڈ جوبلی، 28نے پلاٹینیم جوبلی 51فلموں نے گولڈن جوبلی،جب کہ 139فلموں نے سلور جوبلی منائی۔ قطع نظر اس کے کہ انجمن کی ابتدائی فلمیں اردو میں تھیں، مگر وہ بعد میں پنجابی لوک کہانیوں اور افسانوں میں جو ایک الٹر مٹیار کا تصور ملتا ہے، انجمن اس کی چلتی پھرتی زندہ جاوید تصویر تھی، وہ اپنے نام کی طرح اپنی ذات میں ایک انجمن کی حیثیت رکھتی ہیں۔
انجمن بہترین اداکارہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک سُریلی آواز کی مالک اور سنگیت کے فن سے بھی آشنا ہیں، اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ انجمن اداکارہ نہ ہوتیں تو ایک بہترین گلوکارہ بھی ہو سکتی تھیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ہمارے دور میں محدود بجٹ و وسائل کے ساتھ فلمیں بنا کرتی تھیں، جو چھ چھ ماہ تک سینماؤں کی زینت بنی رہتی تھیں۔ اس کے بر عکس آج انتہائی مہنگے بجٹ و جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ فلمیں بھی بنتی ہیں، لیکن وہ جلد ہی سنیما سے اتر جاتی ہیں۔
واضح رہے کہ انجمن نے اپنے عُروج پر فلمی صنعت کو خیرباد کہتے ہوئے انکم ٹیکس کمشنر مبین ملک کے ساتھ شادی کر نے کے بعد برطانیہ منتقل ہو گئی تھیں، جن سے ان کے 3بچے ہیں۔ حال ہی میں انہیں لکس اسٹائل ایوارڈز کی تقریب میں شاندار خراجِ تحسین پیش کیا گیا، علاوہ ازیں رواں برس حکومتِ پاکستان کی جانب سے صدارتی ایوارڈ بھی نوازا گیا۔ ان دِنوں وہ لاہور میں رہائش پزیر ہیں اور مختلف ٹی وی شوز میں دکھائی دیتی ہیں۔