• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سوموٹو لینا چھوڑ دیا، قربانیاں دینے کیلئے تیار ہیں، تحمل کا مظاہرہ کررہے ہیں، کمزوری نہ سمجھیں، چیف جسٹس

اسلام آباد (نمائندہ جنگ) عدالت عظمیٰ میں’’قومی و صوبائی اسمبلیوں کے عام انتخابات ایک ساتھ منعقد کروانے‘‘ سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دیئے ہیں کہ سیاسی ایشوز کو سیاسی قیادت حل کرے،آپ بات چیت کرتے رہیں.

عدالت کو سیاسی معاملات میں الجھانے سے پیچیدگیاں ہوتی ہیں، ہم نے سوموٹو لینے چھوڑ دیئے ہیں، قربانیاں دینے کیلئے تیار ہیں، تحمل کا مظاہرہ کر رہے ہیں، کمزوری نہ سمجھیں، فریقین کو لچک دکھانی چاہیے، امتحان سے نکل سکتے ہیں اگر آپ کا اتفاق ہو جائے تو، ہمارے ساتھ جو ہوگا دیکھا جائیگا، غصے میں فیصلے درست نہیں ہوتے اسلئے ہم غصہ نہیں کرتے،آئی ایم ایف کا معاملہ سننا نہیں چاہتے، کیا بجٹ آئی ایم ایف کے پیکیج کے تحت بنتا ہے؟ اخبارات کے مطابق دوست ممالک بھی قرضہ آئی ایم ایف پیکیج کے بعد دینگے، لیکن عدالت نے آئین پر عمل کرنا ہے، ہماری اور اسمبلی میں ہونے والی گفتگو کا جائزہ لیں،جو بات یہاں ہورہی ہے اسکا لیول دیکھیں. دونوں فریقین ٹی وی پر ایک ہی دن انتخابات پر راضی نظر آئے، اگر مذاکرات کامیاب نہیں ہوتے تو ہمارا فیصلہ موجود ہے، حکومت نے سنجیدگی سے کیس چلایا ہی نہیں، سماعت شروع کی تو آپ نے بائیکاٹ کر دیا ،چار تین کی بحث میں لگے رہے ، آج کی گفتگو ہی دیکھ لیں، کوئی فیصلے یا قانون کی بات ہی نہیں کررہا ہے، سعد رفیق نے کہا الیکشن نتائج تسلیم نہ کرنے پر ملک ٹوٹ چکا ہے،صرف ایک صوبے میں الیکشن ہوا تو تباہی لائیگا،2017سے ہمارے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے،اداروں اور سیاسی جماعتوں میں عدم اعتماد بہت گہرا ہے، مذاکرات وقت کا زیاں نہیں، جاری رہنے چاہئیں، شاہ محمود قریشی نے کہا کہ یہ مرضی کی مہلت لینا چاہتے ہیں فیصلہ نہ ہوا تو آئین داؤ پر کیوں لگائیں؟وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا چند روز کامیابی ممکن نہیں، مذاکرات کیلئے وقت درکار ہے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی بینچ نے جمعہ کے روز درخواست کی سماعت کی تو چیف جسٹس نے کہا کہ آج خواجہ سعد رفیق اور شاہ محمود قریشی دونوں نظر آرہے ہیں، آج اپنے حوالے سے بھی کچھ بتانا ہے،حکومت کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے اتحادی حکومت کا جواب عدالت میں پڑھ کر سنایا اور کہا کہ قرضوں میں 78 فیصد، سرکولر ڈبٹ میں 125 فیصد اضافہ ہوچکا ہے، سیلاب کے باعث 31 ارب ڈالر کا نقصان ہواہے، موجودہ اسمبلی کی تحلیل سے قبل بجٹ، آئی ایم ایف معاہدہ اور ٹریڈ پالیسی کی منظوری لازمی ہے۔ انہوںنے بتایا کہ مذاکرت میں فریقین کے مابین لیول پلیئنگ فیلڈ اور ایک دن انتخابات پر اتفاق ہواہے تاہم قومی اسمبلی کی تحلیل کی تاریخ پر اتفاق نہیں ہوسکا ہے،حکومت ملکی مفاد میں مذاکرات کا عمل بحال کرنے کوتیار ہے۔ انہوںنے کہا کہ ہر حال میں اسی سال ایک دن الیکشن ہونے چاہئیں، سندھ اور بلوچستان اسمبلیاں قبل از وقت تحلیل پر آمادہ نہیں ہیں، ہر فریق کو مذاکرات میں لچک دکھانی پڑتی ہے، مذاکرات میں کامیابی چند روز میں نہیں ہوسکتی ہے،اسلئے ہمیں مذاکرات کیلئے مزید وقت درکار ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ حکومتی جواب میں آئی ایم ایف معا ہدہ پر زور دیا گیا ہے، عدالت میں ایشو آئینی ہے، سیاسی نوعیت کا نہیںہے، سیاسی معاملہ عدالت سیاسی جماعتوں پر چھوڑتی ہے، آئی ایم ایف معاہدہ اور ٹریڈ پالیسی کی منظوری کیوں ضروری ہے؟ جس پر فاروق ایچ نائیک نے بتایا کہ بجٹ کیلئے آئی ایم ایف کا قرض ملنا ضروری ہے،اگر اسمبلیاں نہ ہوئیں تو بجٹ منظور نہیں ہوسکے گا،اگر پنجاب اور کے پی کے کی اسمبلیاں تحلیل نہ کی جاتیں تو بحران نہ آتا، بحران کی وجہ سے عدالت کا وقت بھی ضائع ہورہا ہے، افہام و تفہیم سے معاملہ طے ہوجائے تو بحرانوں سے نکات مل جائیگی۔

اہم خبریں سے مزید