• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عروج سعد

عاصم صاحب نے دکان سے سامان لیا اور دوسرے ہاتھ سے اپنے بیٹے عمر کا ہاتھ تھامے گھر جانے کے لئے مُڑے ہی تھے کہ عمر نے سامنے سے آتے ہوئے جلال صاحب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا،”ابو جی! دیکھیں بابو چچا جا رہے ہیں۔“

جلال صاحب کی کمر ضعیفی کی وجہ سے جھک گئی تھی اور نظر بھی خاصی کمزور ہوگئی تھی، لیکن اپنے گھر کا سودا سلف خود ہی لاتے تھے۔

عاصم صاحب نے آگے بڑھ کر انھیں سلام کیا اور ان کے ہاتھوں سے سامان کے تھیلے لے کر خود پکڑ لیے۔ باتیں کرتے کرتے انھیں ان کے گھر تک پہنچا دیا اور کہا،’’بابو چچا! میں روزانہ دکان جاتے وقت آپ سے پوچھتا ہوا جاؤں گا۔آپ کو جو بھی منگوانا ہو،میں لا دیا کروں گا۔“

جلال صاحب نے انھیں ڈھیروں دعائیں دیتے ہوئے ہامی بھرلی۔

وہاں سے نکلتے ہی عمر نے پوچھا،”ابو جی! بابو چچا کا گھر تو دوسری گلی میں ہے۔ روزانہ ان کا سودا لا کر دینے میں آپ کو مشکل نہیں ہو گی؟“

عاصم صاحب نے چلتے چلتے اسے دیکھا اور کہا,”مشکل کیسی؟اسی بہانے تھوڑی چہل قدمی بھی ہو جائے گی اور بابو چچا کا کام بھی ہو جائے گا۔اگر ہم سب اسی طرح ایک دوسرے کی مدد کرتے رہیں تو ہمارے معاشرے میں یکجہتی کی فضا قائم ہو جائے گی۔ سمجھے؟“ اور عمر نے اپنا گول مٹول سر ہلا دیا۔

عمر اور اس کا بھائی نوفل تخت پر بیٹھے دادی جان سے قرآن پاک پڑھ رہے تھے۔برابر میں رانی آگے پیچھے ہِل ہل کر قاعدہ پڑھ رہی تھی۔وہ غریب گھر کی بچی تھی اور ان کے گھر ہلکا پھلکا کام کرنے کے لئے آتی تھی۔اب دادی جان نے اسےبھی قاعدہ پڑھانا شروع کیا تھا۔

سبق ختم ہوا اور رانی پنے گھر چلی گئی تو نوفل نے سامنے رکھی چائے کی پیالی میں بسکٹ ڈبوتے ہوئے دادی جان سے پوچھا،’’دادی جان!یہ رانی باجی تو اتنی بڑی ہو گئیں ہیں۔

مشکل سے سبق یاد کرتی ہیں پھر بھی آپ انھیں اتنے پیار سے قاعدہ پڑھاتی ہیں۔“

دادی جان نے سمجھتے ہوئے کہا،’’بات تو آپ کی درست ہے نوفی میاں،مگر علم کسی بھی عمر میں حاصل کیا جا سکتا ہے اور قرآن پاک پڑھانا تو ویسے بھی بہت ثواب کا کام ہے۔ بس ہمیں اچھائی کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہیے۔ ٹھیک ہے نا؟“

دونوں بچوں نے ایک ساتھ ہاں، میں سر ہلا دیے۔

امی نے گھر کی کیاریوں میں لگے ہوئے ”سدا بہار“ کے پودوں میں سے کچھ ٹہنیاں جڑوں سمیت نکالیں اور دو الگ الگ گملوں میں لگا دیں۔ عمر اور نوفل قریب ہی کھیل رہے تھے۔ امی نے پہلے عمر کو بُلا کر کہا،”عمر بیٹا!یہ گملا برابر والے قاسم بھائی کو دے آؤ۔“

پھر نوفل سے کہا،”نوفی! تم یہ گملا سامنے والی طاہرہ خالہ کے گھر پہنچا آؤ۔‘‘

عمر نے حیرت سے پوچھا،”امی ،آپ پڑوسیوں کو پودے دیتی ہیں۔کیا ان پودوں سے ہمارا ماحول خوبصورت ہو جائے گا؟“

امی نے اس کے شانوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے سمجھایا، دیکھو عمر!انسان کو بس اچھے کام کرتے رہنا چاہیے،تاکہ ہماری دیکھا دیکھی دوسرے لوگ بھی فلاح کے کاموں کی طرف راغب ہو جائیں۔جب بہت سارے لوگ مل کر فلاح و بہبود کے کام کریں گے تو ہمارا معاشرہ مثالی ہو جائے گا۔

دیکھو نا!تم لوگ بھی تو اپنی گُلک میں تھوڑے تھوڑے پیسے ڈالتے رہتے ہو۔پھر کچھ عرصے کے بعد وہ تھوڑے تھوڑے پیسے مل کر ایک بڑی رقم بن جاتے ہیں۔بس اسی طرح ہمیں چھوٹے چھوٹے فلاحی کام متحد ہو کر ایک جماعت کی شکل میں کرنے چاہیے۔اس کا فائدہ دنیا میں بھی ہو گا اور آخرت میں بھی۔“

دونوں نے یہ باتیں غور سے سنیں نوفل نے کچھ سوچتے ہوئے کہا،”امی،آج سے میں پودوں کو پانی دیا کروں گا۔“

عمر فوراً بولا،’’اور میں دادی جان کے پیر دبایا کروں گا۔“

عاصم صاحب قریب ہی بیٹھے اخبار پڑھ رہے تھے،انھوں نے کہا:”پڑوسیوں کی مدد کرنا بھی نیک کام ہے،یہ کون کرے گا، بچو!“

دونوں نے ہاتھ ہوا میں بلند کرتے ہوئے نعرہ لگایا:”ہم کریں گے،ہم کریں گے۔“