اسلام آباد ( فاروق اقدس/ تجزیہ) اس بات کا اندازہ لگانا قبل از وقت ہوگا کہ عمران خان کے لب و لہجے میں نظر آنے والی بعض تبدیلیاں حقائق کا ادراک ہیں یا پھر مصلحت کی حکمت عملی، اپنے بیانات، موقف، الزامات اور طرزعمل میں تضادات ان کے ذہنی انتشار کے باعث ہیں یا پھر وہ آئندہ آنے والے حالات کے پیش نظر وکٹوں کے دونوں جانب کھیل رہے ہیں کیا ’’دو قدم پیچھے ہٹنے‘‘ کا مقصد، پوری قوت مجتمع کرکے ’’حملہ آور‘‘ ہونا ہے ایک طرف تو سانحہ9 مئی کے حقائق اور کردار ہیں،
پھر فوج کے مطابق سپہ سالار اور موجودہ آرمی چیف کے بارے میں ان کے ان حامیوں کا پروپیگنڈا جو ہمہ وقت سوشل میڈیا پر اس کام میں مصروف رہتے ہیں.
دوسری طر ف اتوار کو ہی انہوں نے امریکی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ اپنی ہی فوج کا مقابلہ کرکے کوئی کس طرح جیت سکتا ہے اس صورتحال میں آپ جیت بھی جائیں تو ملک ہار جاتا ہے۔
اگر فوج کا ادارہ آئی ایس پی آر عمران خان کو یہ وارننگ دیتا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی بغیر ثبوت حاضر سروس فوجی افسر پر الزام عائد کرینگے تو ان کے خلاف قانونی کارروائی کا حق محفوظ رکھتے ہیں تو اس کا بھی یقیناً ٹھوس پس منظر ہے۔
عمران خان کا دعویٰ ہے کہ منگل کو انہیں ضمانت کیلئے اسلام آباد میں پیش ہونا ہے اور میری گرفتاری کے 80فیصد امکانات ہیں۔