• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ دنوں پاکستان کے مغرب اور مشرق میں دو اہم انتخابات ہوئے۔ تُرکیہ میں صدر اردوان نے صدارتی انتخابات میں49.51 فی صد ووٹ حاصل کیے، جب کہ اُن کے مدّمقابل، کمال کلیچدار کو44.51 فی صد ووٹ ملے۔ اگرچہ، صدر اردوان نے اپنے حریف پر واضح برتری حاصل کی، لیکن کام یابی کے لیے پچاس فی صد سے زاید ووٹ حاصل کرنے ضروری تھے، اِسی لیے اب اٹھائیس مئی کو (آج) دوبارہ ووٹ ڈالے جائیں گے اور جو جیتا، وہی تُرکیہ کا صدر ہوگا۔

زیادہ تر تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ صدارتی انتخابات میں اِس بار کانٹے کا مقابلہ ہوگا، مقابلہ تو واقعی سخت ہوا، لیکن صدر اردوان نے ایک مرتبہ پھر ثابت کردیا کہ وہ عوام کی بہترین پسند ہیں اور اب یہی اندازہ ہے کہ اگر کوئی بڑا سرپرائز نہ ہوا، تو دوسرے اور حتمی رائونڈ میں بھی وہی عوام کے پسندیدہ امیدوار ہوں گے۔ تُرکیہ میں انتخابات ایک ایسے وقت میں ہو رہے ہیں، جب فروری میں آنے والے والے زلزلے میں50 ہزار سے زاید افراد ہلاک ہوئے اور ہر طرف تباہی پھیل گئی۔ 

امدادی کاموں کے حوالے سے اردوان تنقید کی زَد میں رہے۔ منہگائی، افراطِ زر اور بےروزگاری کے ساتھ لیرا کی گراوٹ نے بھی اردوان حکومت کی ساکھ کو سخت نقصان پہنچایا۔ اِسی لیےاکثر تجزیہ کاروں کی رائے تھی کہ صدر اردوان کے لیے یہ انتخابات اُن کے کیریئر کا سب سے مشکل امتحان ہوگا۔ لیکن اُنھوں نے نہ صرف یہ چیلنج قبول کیا، بلکہ کام یاب بھی رہے۔ صدر اردوان کا کہنا تھا کہ اُنہوں نے تُرکیہ کی تاریخ کے سخت ترین چیلنجز کے باوجود مُلک کو سربلند رکھا۔ دونوں اُمیدواروں نے بڑی بڑی ریلیوں اور جلسوں سےخطاب کیا۔ معیشت ہی انتخابات پرغالب رہی،لیکن معاشرے کی تقسیم بہت واضح تھی اور دونوں طرف کے حامیوں کی جانب سے خاصے جذباتی مناظر دیکھے گئے۔ 

صدر اردوان نےاپنی تقاریرمیں عوام کویاددِلایا کہ اُنھوں نے اسکولز، یونی ورسٹیز اور اسپتال تعمیر کیے، شہروں کی شکل بدل ڈالی، تیل اور گیس کے ذخائر سے فائدہ اُٹھایا۔ اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ جب وہ تین مرتبہ وزیرِ اعظم بنے، تو اُن کی پالیسی میں ترقّی اور معیشت اہم ترین رہی، خاص طور پر اُنہوں نے بڑے بڑے شہری منصوبے پایۂ تکمیل تک پہنچائے، جنہوں نے تُرکیہ کو ترقّی کا رول ماڈل بنا دیا۔ 

جب بھی وہ انتخابات میں جاتے ہیں، تو تُرکیہ کے باشعور لوگوں کو یہ منصوبے اور اُن کے فوائد صاف نظر آتے ہیں اور وہ گزشتہ بیس سال سے نہ صرف ان ترقیّاتی کاموں پر مطمئن ہیں، بلکہ اُنہیں دیکھ کر اردوان اور اُن کی پارٹی پر اعتماد رکھتے ہیں کہ وہ ڈیلیور کر سکتے ہیں۔ منہگائی، افراطِ زر اوردوسری مشکلات اپنی جگہ، لیکن تُرکیہ کے عوام کی اکثریت یہی سمجھتی ہے کہ جسٹس اور ڈیویلپمنٹ پارٹی اب بھی اُن کے لیے بہتر خدمات سر انجام دے سکتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں تُرکیہ کے عوام باقی ترقّی یافتہ دنیا کے لوگوں کی طرح معیشت کو اوّلیت دیتے ہیں۔ اُن کے جذباتی نعرے صرف سڑکوں اور جلسوں تک کے لیے ہیں، پولنگ بُوتھ میں اُن کی نظر معاشی استحکام اور پارٹی کی معاشی کارکردگی ہی پر ہوتی ہے۔ 

ری پبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار نے بھی اردوان کا جَم کر مقابلہ کیا، جو کوئی آسان کام نہ تھا، اِسی لیے اُن کی یہ بھی بڑی کام یابی ہے کہ44 فی صد سے زیادہ ووٹ لیے۔ ان کےمنشور میں جہاں معیشت کی درستی کی بات تھی، وہیں عوام کے لیے اُن کا بنیادی پیغام یہ رہا کہ وہ تُرکیہ میں پارلیمانی نظام بحال کردیں گے، جو اُن کے بقول اصل جمہوریت اور بہتر نظام ہے۔ وہ ایک نرم خُو اور دھیمے مزاج کے سیاست دان ہیں، تاہم اپنا پیغام بخوبی لوگوں تک پہنچاتے رہے۔

اِس مرتبہ تُرکیہ کے معاشرے میں بہت تقسیم دیکھی گئی۔ ایک دوسرے پر الزامات لگائے گئے، لیکن انتخابی عمل شفّاف رکھا گیا۔ صدر اردوان صدارتی نظام کےبعدبہت طاقت حاصل کرچُکے ہیں اور اُنہیں کسی حد تک پارلیمان کو بائی پاس کرنے کے بھی اختیارات مل چُکے ہیں، جو ظاہر ہے کہ صدارتی نظام کا خاصّہ ہے۔ ایسے نظام امریکا اور فرانس میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ تاہم، صدر اردوان نے الیکشن کامعاملہ مکمل طور پرالیکشن کاؤنسل پر چھوڑ دیا اور اُسے متنازع بنانے کی کوشش نہیں کی۔ 

یہی وجہ ہے کہ اِتنے کم مارجن کے باوجود دونوں طرف سےنتائج فوری قبول کرلیے گئے۔ سیاسی جماعتوں نےاپنےتمام تراختلافات کے باوجود عدلیہ کو ایسا موقع فراہم نہیں کیا، جس سے وہ سیاسی معاملات میں مداخلت کرتی یا الیکشن کاؤنسل کے سربراہ کو بار بار حاضر ہونے پر مجبور کرتی۔ الیکشن مہم کے آخر تک ماحول اِتنا کشیدہ ہو چُکا تھا کہ دونوں امیدواروں کو جلسوں سے خطاب کے لیے بُلٹ پروف جیکٹس کا استعمال کرنا پڑا، لیکن اُنھیں اپنی سیکیوریٹی فورسز پر مکمل بھروسا تھا۔ اِس معاملے پر کسی نے اداروں کو موردِ الزام نہیں ٹھہرایا۔ ایک اہم بات یہ رہی کہ انتخابات میں ٹرن آئوٹ نے نیا ریکارڈ بنایا، جو88 فی صد سے زیادہ تھا۔ تُرکیہ کی آبادی چھے کروڑ ہے، جس میں ووٹرز کی تعداد ساڑھے تین کروڑ ہے۔ 

سیاسی گرما گرمی کے باوجود دونوں سیاسی فریقوں نے تشدّد کےعُنصر کو قریب بھی نہ آنے دیا۔ ایسے جلسے بھی ہوئے، جن میں سترہ لاکھ افراد نے شرکت کی، تو سوچیں، عوامی جذبات کا کیا عالم ہوگا، لیکن امن و امان میں کوئی خلل نہ آیا۔ جس سے یہ پیغام گیا کہ مقبولیت کا یہ مطلب نہیں کہ مقبول پارٹی یا لیڈر پورے مُلک کو یرغمال بنالے اورہرادارے سےاُمیدکرے کہ وہ اس کےکہےکو آسمانی صحیفہ سمجھے۔ جو کچھ ہمارے مُلک میں 9 مئی کو ہوا، وہ عوام کو تو خون کے آنسو رُلا ہی رہا ہے، لیکن اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ہم ابھی جمہوریت کے معاملے میں کتنے ناپختہ اور نا اہل ہیں، ہمارے لیڈر اپنے جذبات قابو میں رکھ سکتے ہیں اور نہ ہی اپنے حامیوں کی سیاسی تربیت کرسکتے ہیں کہ کس طرح جمہوریت کی طرف بڑھا جاتا ہے۔ 

وہ اپنےقصیدے سُن سُن کر سر دُھنتے ہیں، ہم میں صبر ہے، نہ برداشت۔ غصّہ آتا ہے، تو لیڈر آپے سے باہر ہو کر گالیاں بکنے لگتے ہیں اور یہی حال اُن کے چاہنے والوں کا ہے۔ جس طرح9 مئی کو قومی یادگاریں نذرِ آتش کی گئیں، آخر وہ کون سے ہاتھ تھے، جو اِتنے بےقابو ہوگئے کہ اُنہیں یہ بھی یاد نہ رہا کہ لیڈر اور پارٹیاں تو آنی جانی ہیں، قوم کا فخر وغرور قائم رہنا چاہیےکہ گھر پُھونکنے کے بعد صرف راکھ ہی اُٹھانے کو رہ جاتی ہے اور شاید وہی اب ساری قوم اُٹھا رہی ہے۔ پارٹی اور لیڈر تو یاد رہے، لیکن جس وطن نے چھت دی، روزگار دیا، تعلیم دی، جوانی کا جوش دیا، اُسے بھول گئے۔ وہ ہاتھ شل کیوں نہ ہوگئے، جو ان قومی علامتوں کو خاکستر کرنے کے لیےبڑھے۔ 

سچ تو یہ ہے کہ یہ وقت کسی کے سامنے شرمندہ ہونےکا نہیں، بلکہ خود اپنی نظروں میں گرنے کا ہے۔ ہمیں اب کون اِس ذلّت و رسوائی سے نکالے گا۔ ہم تُرکیہ سے متعلق کیا تبصرہ، تجزیہ کریں، وہ تو ایک ایسی روشن مثال ہے، جس کی گرد تک بھی ہم نہیں پہنچ پائیں گے۔ ہم تو اپنے جذبات کے اُبال ہی میں جل کر رہ جائیں گے۔ ویسے اس اُبال کو گرمانے میں سیاسی رہنماؤں، صحافیوں، دانش وَروں سب ہی نے اپنا بھرم کھو دیا ہے۔ ہم دشمنوں کا کیا مقابلہ کریں گے، پہلے اپنے غصّے اور اُبلتے، بھڑکتےجذبات سے تو مقابلہ کرلیں۔ یہ تو سوچیں کہ ایسے جلاؤ گھیراؤ کے بعد دنیا میں پاکستانیوں کو کون قبول کرے گا۔ جمہوریت تو دُور کی بات ہے، ہم پہلے ووٹر بننا تو سیکھ لیں۔

ہمارے ہی مشرق میں ایک اہم انتخابی معرکہ تھائی لینڈ میں بھی ہوا، جو گزشتہ پندرہ سال سے سیاسی مسائل سےدوچارہے۔ رواں صدی کے شروع میں فوج نےتھاکسن شنواتراکو، جن کا شمار جنوب مشرقی ایشیا کے اُن ویژنری سیاست دانوں میں ہوتا ہے، جنہوں نے خطّے کو دنیا کا سب سے ترقّی یافتہ علاقہ بنایا، اقتدار سے محروم کردیا۔ تھاکسن شنواترا کا موازنہ سنگاپور کے لی کوان یو، چین کے ڈینگ شیاؤپنگ اور ملائیشیا کے مہاتیر محمّد سے کیا جاتا ہے، جنہوں نے اپنے اقتصادی ویژن سے نہ صرف اپنے مُلکوں، بلکہ جنوب مشرقی ایشیا میں ترقّی کا آغاز کیا اور جو مسلسل فروغ پا رہی ہے۔ 

تھائی فوج کو یہ سب پسند نہ تھا بلکہ اُسے تو منتخب نمائندوں اورپارلیمان سےچڑتھی۔ تھاکسن شنواترا کےخلاف کرپشن کابیانیہ بنایاگیااور پھر اعلیٰ عدلیہ کےذریعے اُنھیں اقتدار سے ہٹا کر جلاوطنی پر مجبور کردیا گیا۔ اس کے بعد تجربات پر تجربات کیے جاتے رہے، لیکن جب بھی شفّاف انتخاب ہوئے، تھاکسن شنواترا کی پارٹی ہی فتح یاب ہوئی۔ 2014 ء میں ہونے والے انتخابات میں شنواترا کی بہن ینگلک شنواترا نے انتخاب لڑا اور بڑے مارجن سے کام یاب ہوئیں، لیکن اُنھیں بھی کرپشن کا الزام لگا کر اقتدار سے بےدخل کر دیا گیا اور مارشل لا لگا کر فوج کے ایک پسندیدہ شخص کو وزیرِ اعظم بنادیا گیا،لیکن آخر کب تک۔ 

تھائی لینڈ کی معیشت گرتی گئی اور وہ جنوب مشرقی ایشیا میں سب سے پیچھے ہوگیا۔ نوجوانوں میں بےچینی بڑھنے لگی، تو فوج کو مجبوراً انتخابات کروانے پڑے۔ تھائی لینڈ میں فوج نے یہی طریقہ اپنا رکھا ہے کہ یا تو ہائبرڈ حکومت لاتی ہے یا منتخب وزیر اعظم کو عدالت اور الیکشن کمیشن کے ذریعے نااہل کروا دیتی ہے۔ منتخب وزرائے اعظم کو جلاوطن ہونے پر مجبور کیا جاتا ہےیاپھر اُنھیں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑتی ہیں۔ تاہم، شاید یہ کھیل اِس مرتبہ ممکن نہ ہو کہ انتخابات میں کام یاب ہونے والی دونوں جماعتیں فوج کی سخت مخالف ہیں۔ مُوو فارورڈ اور فیو تھائی پارٹی دونوں ہی جمہوریت پر متفّق ہیں۔ 

تھائی لینڈ، جنوب مشرقی ایشیا کا ایک اہم اور بڑا مُلک ہے، جس کی آبادی سات کروڑ سے زاید ہے۔ اسے پہلے سیام کہا جاتا تھا۔ اس کی زمینی سرحدیں میانمار، لاؤس، کمبوڈیا، ملائیشیا اور خلیج تھائی لینڈ سے ملتی ہیں۔ بنکاک اس کا عالمی شہرت یافتہ دارالحکومت ہے۔ ہمیں تھاکسن شنواترا کے دَور میں وہاں جانے کا اتفاق ہوا۔ اُس وقت وہاں چاروں طرف تعمیروترقّی کا دور دورہ تھا۔ بنکاک کا مشہور فلائی اوور، جو چالیس میل لمبا ہے، نیا نیا تعمیر ہوا تھا، یہ ائیر پورٹ سے ہوتا ہوا پورے شہر سے گزرتا ہے اور اس پر ریل گاڑی اور دیگر گاڑیاں چلتی ہیں۔ یہ شہر کے ہر حصّے کو ملاتا ہے اور معاشی ترقّی کی ایک علامت ہے۔ 

بنکاک اپنے زمانے کے مشہور دفاعی معاہدے سیٹو کا ہیڈ کوارٹر بھی رہا۔ یہاں آئینی بادشاہت قائم ہے، لیکن مُلک پارلیمانی جمہوری طرزِ حکومت پر چلتا ہے۔2006 ء میں تھاکسن شنواترا کے زبردستی اقتدار سے ہٹائے جانے اور جلاوطنی کےبعد سے آج تک سیاسی استحکام دیکھنےمیں نہیں آیا۔ تھائی لینڈ ایک جدید صنعتی مُلک ہے اور سیّاحت کےلیےدنیابھر میں مشہور ہے۔ اس کی طاقت کا اندازہ اس کی برآمدی طاقت سے لگایا جاسکتا ہے۔ یہ سالانہ100 بلین ڈالرز سے زاید کی برآمدات کرتا ہے، جس میں گاڑیاں، کمپیوٹرز، بجلی کی مصنوعات، ٹیکسٹائل، چمڑے سے تیار اشیاء، ربڑ، مچھلی اور مصنوعی زیورات شامل ہیں۔

تھائی لینڈ کے حالیہ انتخابات میں ایک بڑی اور حیرت انگیز تبدیلی یہ آئی کہ پہلی مرتبہ ایک نئی پارٹی، مُوو فارورڈ یعنی ’’آگے بڑھو‘‘ نے سب سے زیادہ151 نشستیں حاصل کیں۔ یہ پارٹی زیادہ تر نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ اس کے بعد شنواترا کی پارٹی نے 141 نشستیں لیں۔ یہ دونوں اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہیں اور جمہوریت کی بحالی چاہتی ہیں اور اُنھوں نے مل کر حکومت بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ مُوو فارورڈ پارٹی کے لیڈر نے اتحادی پلیٹ فارم بنانے کے بعد اعلان کیا کہ تھائی لینڈ کے عوام نے اپنا فیصلہ سُنا دیا اور مَیں مُلک کا وزیرِ اعظم بننے کے لیے تیار ہوں۔ 

اس دو پارٹی اتحاد کے ساتھ چار چھوٹی جماعتیں بھی شامل ہوگئی ہیں، اِس طرح اُنھیں منتخب ایوان میں اکثریت حاصل ہے، مگر مشکل یہ ہے کہ فوجی حکومت نے ایک قانون کے ذریعے سینیٹ کی نشستوں پر اپنے250 ممبرز ایوان میں داخل کیے ہیں اور فوج کے بنائے آئین کے مطابق وزیرِاعظم کے انتخاب میں اُن کے ووٹ بھی شامل ہوں گے۔ ایوان پانچ سو ارکان پر مشتمل ہے۔ اب اگر اُنہوں نے منتخب نمائندوں کی حکومت بننے کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کی، تو اندیشہ ہے کہ کہیں ڈیڈ لاک نہ پیدا ہوجائے اور معاملہ پھر کھٹائی میں نہ پڑجائے، جیسا کہ پہلے ہوتا رہا ہے، لیکن مُوو فارورڈ اور اس کے اتحادی یہ رسک لینے کو بھی تیار ہیں۔ 

اس کے علاوہ، الیکشن کمیشن اور آئینی عدالتیں بھی بڑے چیلنجز ہیں، کیوں کہ یہ ماضی میں کسی نہ کسی آئینی شِق کا سہارا لے کر منتخب وزیرِ اعظم کو کام سے روکتے رہے ہیں۔ اُنھوں نے نہ صرف منتخب وزرائے اعظم کو کرپشن کے الزامات میں جیل میں ڈالا، جمہوری حکومتوں کا خاتمہ کر کے فوج کی مرضی کے حُکم رانوں کو آئینی تحفّظ بھی دیتے رہے۔ یاد رہے، جانے والی حکومت کے سربراہ پری یوتھ چنوچاہ فوج کے سابق سربراہ ہیں اور ایسے ہی تجربات نے مُلک میں جمہوریت کو پنپنےدیا اور نہ ہی وہ تعمیر ترقّی ہو پائی، جس کا درحقیقت تھائی لینڈ اہل ہے۔

سنڈے میگزین سے مزید