• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کیا 9 مئی کے واقعات عمران خان کیلئے نائن الیون ہیں؟

اسلام آباد ( تجزیہ:…حامد میر) ہر نسل کیلئے کم از کم ایک دن ایسا ضرور آتا ہے جو اس کی دنیا بدل دیتا ہے۔ وہ کون سا دن ہے جس نے حالیہ دنوں میں پاکستان کو ڈرامائی طور پر بدل دیا؟ جی، یہ 9 مئی 2023 کا دن تھا۔ یہ بات الفاظ میں بیان نہیں کی جا سکتی کہ اس دن کتنے پاکستانیوں نے خود کو بکھرا ہوا اور شرمندہ محسوس کیا۔

اُس دن پاکستان تحریک انصاف کے حامیوں نے جنونی انداز سے عمران خان کی گرفتاری پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے ریڈیو پاکستان پشاور کی ایک پرانی عمارت، راولپنڈی میں چار میٹرو بس اسٹیشن، لاہور میں کور کمانڈر ہاؤس، قومی ہیروز کی یادگاریں جلا دیں، کئی شہروں اور سیکیورٹی اداروں کے دفاتر میں توڑ پھوڑ کی گئی اور انہیں نذر آتش کیا گیا۔ 

فوج نے 9 مئی کو جی ایچ کیو پر حملہ کرنے والے افراد کی تصاویر جاری کیں جن میں چار خواتین شامل ہیں۔ گیارہ ستمبر کے واقعات نے نہ صرف دہشت گردی کے خلاف عالمی ردعمل کو نئی شکل دی بلکہ امریکی امیگریشن پالیسیوں کو بھی بدل دیا جس کی وجہ سے نسلی شناخت اور نفرت انگیز جرائم میں بھی اضافہ ہوا۔ 

گیارہ ستمبر نے امریکا کو بدل دیا۔ تو کیا نو مئی کے واقعات نے پاکستان کو بھی بدل دیا؟ سابق صدر آصف علی زرداری نے 9 مئی 2023 کو عمران خان کا نائن الیون قرار دیا۔ ان کے خیال میں اس دن عمران خان نے عمران خان کو تباہ کر دیا۔ 

وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال کا مزید کہنا ہے کہ 9 مئی کی توڑ پھوڑ پاکستان کی قومی سلامتی پر گیارہ ستمبر جیسا حملہ تھا۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے عمران خان اور ان کے حامیوں کو دہشت گردوں سے کم نہیں قرار دے دیا۔ قومی اسمبلی نے 23 مئی کو ایک قرارداد منظور کی اور 9 مئی کو قومی سانحہ قرار دیا۔ 

پاکستان سے باہر رہنے والے لوگ نو مئی کو گیارہ ستمبر سے جوڑ نہیں سکتے۔ گیارہ ستمبر کو امریکا پر باہر سے آئے لوگوں نے حملہ کیا لیکن راولپنڈی میں آرمی ہیڈ کوارٹر، لاہور میں کور کمانڈر ہاؤس اور فیصل آباد میں آئی ایس آئی کے دفتر پر حملہ کرنے والے لوگ بھارت سے نہیں آئے تھے، یہ سب لوگ پاکستانی تھے اور کئی لوگوں کا بیک گراؤنڈ فوج سے تھا۔ 

لاہور کی ایک امیر اور انتہائی تعلیم یافتہ خاتون کی مثال لے لیں۔ انہیں کور کمانڈر ہاؤس لاہور پر حملے کے الزام میں 23؍ مئی کو گرفتار کیا گیا۔ یہ خاتون خدیجہ شاہ نہ صرف سابق آرمی چیف جنرل آصف نواز کی نواسی ہیں بلکہ سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر سلمان شاہ کی بیٹی بھی ہیں۔ پیشے سے فیشن ڈیزائنر اور تین بچوں کی ماں ہیں۔ 

وہ نو مئی کو لاہور میں کور کمانڈر ہاؤس کے سامنے عمران خان کی گرفتاری کیخلاف احتجاج میں شامل ہوئیں، کور کمانڈر ہاؤس کو مظاہرین نے حملہ کرکے اسے آگ لگا دی۔ کور کمانڈر ہاؤس لاہور کو جناح ہاؤس بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ کبھی پاکستان کے بانی محمد علی جناح کی رہائش گاہ ہوا کرتا تھا۔ پاکستان کے پہلے فوجی آمر جنرل ایوب خان نے اس رہائش گاہ کو کبھی میوزیم میں تبدیل نہیں کیا۔ انہوں نے اسے 1959 میں کور کمانڈر لاہور کی رہائش گاہ قرار دیا۔ 

عمران خان کو سپریم کورٹ کے حکم پر 11 مئی کو رہا کیا گیا تھا لیکن 9 مئی کے حملوں کے بعد سے ملک بھر سے عمران خان کے ساڑھے چار ہزار سے زائد حامیوں کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔ سول اور فوجی تنصیبات پر حملوں میں ملوث تمام افراد کی گرفتاری کیلئے پولیس وحشیانہ حربے استعمال کر رہی ہے۔ خدیجہ شاہ واحد خاتون نہیں ہیں جو عمران خان کی حمایت کی قیمت ادا کر رہی ہیں۔ 

اسلام آباد میں مقیم سابق وزیر انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری 9 مئی کو کبھی بھی کسی احتجاج میں شامل نہیں ہوئیں۔ ان کیخلاف کوئی ثبوت نہیں کہ انہوں نے کسی کو توڑ پھوڑ پر اکسایا لیکن انہیں پرانے سخت کالے قانون (مینٹی ننس آف پبلک آرڈر یعنی ایم پی او) کے تحت گرفتار کیا گیا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے 9 مئی سے اب تک تین بار انہیں رہا کرنے کا حکم دیا لیکن ہر بار انہیں دوبارہ گرفتار کیا گیا۔ 

بالآخر 23 مئی کی شام کو انہوں نے پی ٹی آئی کو خیرباد کہہ دیا۔ وہ کہتی ہیں کہ میں کچھ مطلوبہ آنٹیوں کو جانتی ہوں جو پی ٹی آئی کی سرگرم کارکن نہیں بلکہ کرکٹر عمران خان کی مداح ہیں۔ کرکٹ کے مداح جو اب سیاسی حامی بن چکے ہیں، وہ سب گرفتاری سے بچنے کیلئے ادھر ادھر بھاگ رہے ہیں۔ سابق صوبائی وزیر اور پارٹیاں بدلنے کے حوالے سے شہرت یافتہ فیاض الحسن چوہان نے بھی پی ٹی آئی چھوڑ کر عمران خان کے خلاف چارج شیٹ پیش کر دی۔ انہوں نے الزام لگایا کہ عمران خان ملک میں خانہ جنگی چاہتے ہیں۔ 

تاہم، عمران خان کا دعویٰ ہے کہ پی ٹی آئی نے کبھی فوجی تنصیبات پر حملے کی منصوبہ بندی نہیں کی۔ انہوں نے انٹیلی جنس ایجنسیوں کو نو مئی کے واقعات کرانے کا الزام عائد کیا۔ ابتدائی طور پر عمران خان نے اپنے قریبی ساتھیوں کو بتایا کہ چند دنوں میں سیاسی صورتحال معمول پر آجائے گی۔ شاید فوج کے اندر کچھ مخفی حمایت اور عدلیہ کی کھلی حمایت پر انحصار کر رہے تھے لیکن چند ہی دنوں میں وہ بے بس نظر آنے لگے۔

اہم خبریں سے مزید