اسلام آباد ( مہتاب حیدر) آئی ایم ایف کے منیجنگ ڈائریکٹر نے بجٹ 2023-24 پیش ہونے سے قبل وزیراعظم شہباز شریف کو جواب دیتے ہوئے کہہ دیا تھا کہ اسلام آباد اسٹاف لیول معاہدے کےلیے تینوں شرائط پوری کرے۔
اسٹاف لیول معاہدے کےلیے تین شرائط میں آئی ایم ایف کے تقاضے کے مطابق بیرونی فنانسنگ کا اہتمام ، آئی ایم ایف کے تخمینے کے مطابق بجٹ کی پیشی اور منظوری اور مارکیٹ کی بنیاد پر شرح تبادلہ کا تعین کرناشامل تھا۔
پاکستانی حکام اگرچہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ بجٹ کے بعد انہیں آئی ایم ایف کی جانب سے کوئی ردعمل نہیں ملا تاہم دونوں فریقین نے آئی ایم ایف کی مینجنگ ڈائریکٹر کی جانب سے وزیراعظم پاکستان کو دیے گئے اس ردعمل پر خاموشی برقرار رکھنے کو ترجیح دی ہے جو انہوں نے بجٹ سے پہلے ہونے والے رابطے میں دیاتھا۔
ذرائع کا دعویٰ ہے کہ آئی ایم ایف کی ایم ڈی نے وزیراعظم شہباز شریف کی ٹیلی فون کال پر بڑی وضاحت کے ساتھ کہہ دیا تھا کہ اسٹاف لیول معاہدہ صرف آئی ایم ایف کے اسٹاف کے دیے ہوئے رہنما خطوط پرعملدرآمد سے ہی ہوپائے گا۔
اس نامہ نگار نے یہ سوال آئی ایم ایف واشنگٹن ڈی سی اور اسلام آباد دونوں دفاتر میں بھی بھیجا اور وزارت خزانہ کو بھی بھیجا لیکن اس رپورٹ کی اشاعت تک کوئی ردعمل موصول نہ ہواتھا۔ دوسری جانب پاکستانی وزیر خزانہ اسحق ڈار آئی ایم ایف سے معاہدے کی بحالی پر پرامید ہیں اور یہ کہتے پائے گئے ہیں کہ اسٹاف لیول سمجھوتے میں تاخیر کی کوئی وجہ نہیں ہے۔
آئی کیپ سے پوسٹ بجٹ سیمینار کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے ڈار کا کہنا تھا کہ حکومت نے 170ارب ٹیکس عائد کرنے جیسے اقدامات کرکے سخت اقدامات فروری 2023 میں کیے تھے اور اس کے علاوہ بھی آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کے تمام اقدامات کیے۔
’بیرونی فنانسنگ کے خلا‘کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کی جانب سے 7 ارب ڈالر کے فنانسنگ خلا کا تخمینہ اضافہ شدہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کی بنیاد پر لگایا گیا تھا تاہم یہ موجودہ مالی سال کے پہلے دس ماہ میں یہ صرف 3.3 ارب ڈالر رہ گیا تھا جبکہ گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے میں یہ 13.7ارب ڈالر تھا۔ ا ب جاری کھاتوں کے خسارے کا تخمینہ30جون 2023 تک 4 ارب ڈالر لگایا گیا ہے۔