اسلا م آباد(نیوز ایجنسیاں ) سپریم کورٹ میں سویلینز افراد کے فوجی عدالتوں میں ٹرائلز کیخلاف دائر درخواستوں پر سماعت کے دوران وفاقی حکومت نے بینچ پر اعتراض اٹھا دیا جسکے بعد کیس کی سماعت کرنے والا 7 رکنی بینچ بھی ٹوٹ گیا اور جسٹس منصور علی شاہ الگ ہوگئے 6 رکنی بینچ نے سماعت کا سلسلہ آگے بڑھایا۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا آپ جسٹس منصور پر اعتراض جانبداری پر اٹھا رہے یا مفادات کے ٹکرائو کی بنیاد پر؟ اٹارنی جنرل نے کہا وفاقی حکومت نے جسٹس منصور پر مفادات کے ٹکرائو کی بنیاد پر اعتراض کیا ہے، چیف جسٹس نے کہا کیا آپ وزیراعظم سے پوچھیں گے کہ کسی رشتہ داری کی بنیاد پر اعتراض کیوں اٹھایا گیا؟ کیا حکومت پھر بینچ کو متنازع کرنا چاہتی ہے، الیکشن کے حکم پرعملدرآمد نہ کرنے پرعدالت نے سخت ایکشن سےگریز کیا، سپریم کورٹ چھڑی کا استعمال نہیں کررہی مگر دیگر لوگ کس حیثیت میں چھڑی کا استعمال کر رہے ہیں؟ پارلیمنٹ میں ہمیں لائیک مائنڈڈ ججز کہہ کر پکارا جاتا رہا، سپریم کورٹ کو داغدار نہ کریں، تضحیک مت کریں،جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کوئی ایک انگلی بھی اٹھا دے میں پھر کبھی اس بینچ کا حصہ نہیں رہتا، دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 21 ویں آئینی ترمیم کا فیصلہ دیکھیں، مسلح افواج پر ہتھیار اٹھانے والوں پر آرمی ایکٹ کے نفاذ کا ذکر ہے، امید ہے دوران سماعت کسی سویلین کا ملٹری ٹرائل نہیں ہوگا،پی ٹی آئی کے وکیل کا کہنا تھا کہ 9 مئی کے واقعات کی تحقیقات کیلئے جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا جائے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ سیاسی مقاصد کے اہداف اور خواہشات کے حصول کی بات نہ کریں، جسٹس عائشہ ملک نے کہا ہم ملٹری کورٹس کو کیسے کہیں کہ وہ عدالتیں نہیں۔ چیئرمین پی ٹی آئی، سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ، معروف قانون دان اعتزاز احسن اور سول سائٹی کی جانب سے عام شہریوں مقدمات آرمی ایکٹ کے تحت فوجی عدالتوں میں چلانے کیخلاف درخواستوں پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تشکیل دیئے گئے 9 رکنی بینچ نے 22 جون کو سماعت کا آغاز کیا تھا، تاہم دورانِ سماعت جسٹس قاضی فائز عیسی اور جسٹس سردار طارق مسعود کے اعتراضات کے بعد 9 رکنی لارجر بینچ ٹوٹ گیا تھا جس کے بعد 7 رکنی بینچ نے سماعت کا دوبارہ آغاز کیا تھا۔مذکورہ درخواستوں پر پیر کو سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان روسٹرم پر آئے اور وفاقی حکومت کی جانب سے جسٹس منصور علی شاہ پر اعتراض اٹھادیا، جسٹس منصور علی شاہ کے 7 رکنی بینچ سے علیحدہ ہونے کے بعد سپریم کورٹ کا 6 رکنی بینچ سماعت کی۔6 رکنی لارجر بینچ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے علاوہ جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس سید مظاہر علی اکبر اور جسٹس عائشہ ملک پر مشتمل ہے۔سماعت کے آغاز پر چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان روسٹرم پر آئے اور عدالت سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ہماری درخواست پر نمبر نہیں لگا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اس معاملے ہر بعد میں آئیں گے، ابھی ہم ایک سیٹ بیک سے ریکور کر کے آرہے ہیں۔چیف جسٹس نے حامد خان سے مکالمہ کرتے ہوئے مزید ریمارکس دیے کہ یہاں دلائل کے بجائے دیگر حربے آزمائے جا رہے ہیں، آپ نے درخواست میں بھی مختلف استدعائیں کر رکھی ہیں۔ حامد خان نے کہا کہ میں اِن میں سے صرف ملٹری کورٹ والی استدعا پر فوکس کروں گا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس معاملے کو بعد میں دیکھیں گے۔درخواست گزار جنید رزاق کے وکیل سلمان اکرم راجا نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ میرے موکل کے بیٹے کا معاملہ ملٹری کورٹس میں ہے، ٹرائل صرف آرٹیکل 175 کے تحت تعینات کیا گیا جج کر سکتا ہے، ایف پی ایل ای کیس کا جب فیصلہ ہوا تب اختیارات کی تقسیم کا اصول واضح نہیں تھا۔جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ ایف پی ایل ای کے ساتھ اس کیس سے کیسے متعلقہ ہے؟ اپنے پہلے دن کے سوال پر جائونگی کہ آرمی ایکٹ کے سیکشن 2 ڈی کا اطلاق کس پر ہوتا ہے؟جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا افواج کے افسران کا بھی ملٹری کورٹس میں کورٹ مارشل نہیں ہو سکتا؟ سلمان اکرم راجا نے کہا کہ برطانیہ اور امریکا میں مخصوص حالات میں فوجی افسران کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوتے ہیں۔ جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئے کہ ایف پی ایل ای کیس تو ریٹائرڈ آرمی آفیشلز کے ٹرائل پر تھا۔جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ ایک آرمی آفیسر کا بھی ملٹری کوٹس میں ٹرائل یا کورٹ مارشل نہیں ہو سکتا؟ سلمان اکرم راجا نے کہا کہ اگر کسی عدالت میں ٹرائل سے میرے آئینی حقوق متاثر نہیں ہوتے تو پھر خصوصی عدالت میں کیس چل سکتا ہے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ابھی کسی کا ٹرائل شروع ہوا؟ سلمان اکرم راجا نے جواب دیا کہ ابھی کسی کا ٹرائل شروع نہیں ہوا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ پھر مفروضوں پر بات نہ کریں کہ ٹرائل ہو گا تو یوں ہوگا، ایسے تو کل ملٹری افسران کے ٹرائل پر بھی بات کی جائیگی، ہمارے پاس کل آخری ورکنگ ڈے ہے، متعلقہ بات ہی کریں۔ سلمان اکرم راجا نے کہا کسی شخص کو شفاف ٹرائل کے حق سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمیں کوئی عدالتی نظیر دکھا دیں، 175 کیسے ملٹری ایکٹ سے منسلک ہے، ایک گھڑی ہے جسے گرینڈ کومپلیکیشن (Grand Complication) کہتے ہیں، آپ گرینڈ کومپلکیشن نہ بنائیں، آپ اپنے دلائل مختصر اور صرف کیس سے متعلق دیں۔جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئے کہ ایف بی ایل ای کیس میں تو ریٹائرڈ فوجیوں کی فوج کے اندر تعلق کا معاملہ تھا، جو اس سے مطابقت نہیں رکھتا، کیا سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوسکتا ہے یا نہیں؟ آپ آرمی ایکٹ کی شقیں چیلنج کر رہے ہیں لیکن وجوہات نہیں بتا رہے۔سلمان اکرم راجا نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ ایک کیس میں یہ اصول طے کر چکی ہے کہ جوڈیشل امور جوڈیشری ہی چلا سکتی ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ فوجی عدالتوں سے متعلق متعدد فیصلے موجود ہیں، آپ جو بات کر رہے ہیں وہ فوجیوں کے حق میں جاتی ہے، ہم بہت سادہ لوگ ہیں، ہمیں سادہ الفاظ میں بتائیں، جو باتیں یہاں کرر ہے ہیں ہارورڈ یونیورسٹی میں جا کر کریں۔ سلمان اکرام راجا نے کہا کہ آرٹیکل 175 تھری کے تحت جوڈیشل اختیارات کوئی اور استعمال نہیں کر سکتا، میں ملٹری کورٹس میں سویلین کے ٹرائل کی حد تک ہی بات کر رہا ہوں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ تو ہمیں یہ ہی بتائیں کہ کیا سویلین کو بنیادی حقوق سے محروم کیا جا سکتا ہے؟ سلمان اکرم راجا نے جواب دیا کہ کسی پر الزام لگا کر فیئر ٹرائل سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔