کراچی (ٹی وی رپورٹ) جیوکے پروگرام ”کیپٹل ٹاک“میں میزبان حامد میر سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ پروگرام کے مواد پر چیئرمین پیمرا کوئی فیصلہ نہیں لے سکتا، پچھلے دور میں چلتے پروگرامز بند ہوتے تھے،سینئر تجزیہ کار شاہزیب خانزادہ کا کہنا تھا کہ پیمرا ترمیمی بل میں کچھ چیزیں اچھی ہیں، ڈس انفارمیشن اور مس انفارمیشن کے درمیان فرق کیا گیا جو اچھی بات ہے، یہ اہم بات ہے کہ بل میں میڈیا کارکنان کو وقت پر تنخواہ ملنا یقینی بنایا گیا ہے،مریم اورنگزیب نے کہا کہ پیمرا ترمیمی بل میں کوئی فیصلہ جوائنٹ ایکشن کمیٹی کی مشاورت کے بغیر نہیں کیا گیا، جوائنٹ ایکشن کمیٹی میں میڈیا کی تمام تنظیموں کے سربراہان شامل ہیں، اخبارات کے ملازمین کی شکایات کے ازالے کیلئے آئی ٹی این ای کا پلیٹ فارم موجود ہے، وزیر بنی تو دیکھا میڈیا آؤٹ لیٹس میں لوگوں کو اکیس اکیس مہینے تک تنخواہیں نہیں دی گئیں، لوگوں کے پاس گھر کے خرچے اور دوائی کیلئے بھی پیسے نہیں ہوتے، اکثر ملازمین کو آؤٹ سورس ایچ آر کمپنی کے ذریعہ رکھا جاتا ہے وہ کبھی پے رول پر نہیں آتا، ہم نے ملازمین کے 12کروڑ روپے ریکور کروائے ہیں۔مریم اورنگزیب نے کہا کہ الیکٹرانک میڈیا کے ملازمین کیلئے کوئی پلیٹ فارم نہیں تھا، الیکٹرانک میڈیا کے ملازمین اب کونسل آف کمپلین کے اندر درخواست دائر کرسکتے ہیں، میڈیا ملازمین کی تنخواہوں کو حکومتی اشتہارات اور کم از کم تنخواہ کے ساتھ منسلک کیا ہے،60دن والی تنخواہ کی شرط نہیں واجبات کیلئے ہے، الیکٹرانک میڈیا کو تمام میڈیا کارکنان کو واجبات 2مہینے میں ادا کرنے ہیں۔مریم اورنگزیب نے کہا کہ میڈیا کوڈ آف کنڈکٹ کے مطابق دوسرے فریق کے موقف کے بغیر خبر نہیں چلائی جاسکتی، موجودہ کوڈآف کنڈکٹ، ہتک عزت کا قانون اور پیمرا آرڈیننس میں مس انفارمیشن اور ڈس انفارمیشن کی تشریح کو دو حصوں میں تقسیم کر کے اس کا تھریش ہولڈ بڑھا کر اس میں intent کا element ڈال دیا گیا ہے، اس شق میں کہا گیا ہے کہ اگر صحافی کی intention misleading, fabricated or created ہو اگر اس میں بھی موقف لے لے تو خبر چلادے، اگر اس پر شکایت جاتی ہے تو اسے دستاویزی شواہد کے ساتھ خبر ثابت کرنا ہوگی۔ مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ کونسل آف کمپلین میں کوئی حکومتی رکن یا سیاسی کا رکن شامل نہیں ہوگا، کونسل آف کمپلینٹ میں تقرریاں ہوگئی ہیں ، ن لیگ یا کسی سیاسی جماعت کا کوئی رکن شامل نہیں ہے،یہ بات درست نہیں کہ ترمیمی بل میں چیئرمین پیمرا کے ہاتھ باندھ دیئے گئے ہیں، موجودہ قانون میں چیئرمین پیمرا چینل کا لائسنس معطل یا منسوخ اور کوئی بھی پروگرام بند کرسکتا ہے، پیمرا ترمیمی بل کے بعد اتھارٹی اور چیئرمین پیمرا نہ پروگرام یا چینل پر پابندی لگاسکتے ہیں نہ اس کا لائسنس منسوخ کرسکتا ہے، سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق کسی چینل یا پروگرام پر پابندی یا لائسنس منسوخ کرنے کا اختیار کونسل آف کمپلینٹ کو دیدیا گیا ہے، پروگرام کے مواد پر چیئرمین پیمرا کوئی فیصلہ نہیں لے سکتا، پچھلے دور میں چلتے پروگرامز بند ہوتے تھے، پہلے کونسل آف کمپلینٹ کے فیصلے پر عملدرآمد لازمی نہیں ہوتا اتھارٹی فیصلہ لے لیتی تھی، اب کونسل آف کمپلینٹ ہی پروگرام کے مواد پر کوئی فیصلہ لے سکتی ہے، اتھارٹی اپنے کورم کے ساتھ کوئی فیصلہ کرے تب بھی وہ پروگرام بند یا چینل کا لائسنس کینسل نہیں کرسکتی یہ بھی کونسل آف کمپلینٹ کے پاس جائے گا۔ مریم اورنگزیب نے کہا کہ ترمیمی بل کے بعد صحافی کیخلاف اسی عدالت میں درخواست دائر ہوسکتی ہے جس صوبے کا وہ رہائشی ہے، پہلے ایسا ہوتا تھا کہ ایک صوبے کے صحافی کیخلاف دوسرے صوبے میں پٹیشن دائر کردی جاتی تھی، حکومت نے ٹی وی چینلز پر عمران خان کی شکل یا بیان نہ دکھانا ہو تو اس قانون سے زیادہ فائدہ انہی کو ہوگا، میڈیا چینلز عمران خان کا نام لیں کس نے منع کیا ہے۔