اسلام آباد، لاہور (نمائندہ جنگ) سپریم کورٹ بار نے چیئرمین پی ٹی آئی کو ملنے والی سزا پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ عدلیہ کی جانب سے مقبول سیاسی رہنمائوں کی نااہلی اور پابندی کا تاریخی رجحان جمہوریت کے اصولوں اور منصفانہ ٹرائل کے منافی ہے۔دوسری جانب لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے عہدیداروں نے ایک مشترکہ بیان میں کہا کہ عمران خان کو سزا خلاف قانون ہے، فیصلے کے در پردہ قوتیں جمہوریت کو چلنے نہیں دینا چاہتیں، ہم اپنا کردار ادا کرینگے۔ تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے توشہ خانہ بدعنوانی کیس میں پی ٹی آئی کے سربراہ، عمران خان کو ملنے والی سزا کی قانونی حیثیت کے حوالے سے شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ انتہائی بدقسمتی کی بات ہے کہ عدالت نے ملزم کو سماعت کا منصفانہ موقع فراہم کئے بغیر ہی اپنا فیصلہ سنا دیا۔ سپریم کورٹ بار کے صدر عابد ایس زبیری اور سیکرٹری مقتدیر اختر شبیر نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ایڈیشنل سیشن جج نے یہ فیصلہ جاری کرکے اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم کی صریحاً خلاف ورزی کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایڈیشنل سیشن جج نے چیئرمین پی ٹی آئی کو الیکشن ایکٹ کی دفعہ 167، 173 اور 174 کے تحت بدعنوانی کا مجرم قرار دیا ہے، چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل کی غیر موجودگی میں کیس کا فیصلہ بالکل جلد بازی میں کیا گیا۔ یہ آرٹیکل 4 کے تحت ملزم کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ ہائیکورٹ نے ایڈیشنل سیشن جج کو ہدایت کی تھی کہ وہ قابل سماعت ہونے کے معاملے پر نئے سرے سے فیصلہ جاری کریں۔ اس طرح کے فیصلے کے وقت کا مقصد سیاسی رہنمائوں کو آئندہ انتخابات میں حصہ لینے سے باز رکھنا ہے۔ ادھر صدر لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن چوہدری اشتیاق احمد خاں ،ربیعہ باجوہ نائب صدر لاہور ہائیکورٹ بارایسوسی ایشن، محمد شاہ رخ شہباز وڑائچ فنانس سیکرٹری لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن نے مشترکہ بیان میں کہا ہےکہ توشہ خانہ کیس میں ایڈیشنل سیشن جج اسلام آباد نے چیئر مین تحریک انصاف عمران خان کو جس عجلت میں سزا سنائی وہ فیئر ٹرائل اور متعلقہ قوانین کی سخت خلاف ورزی ہے اور سزاء سناتے وقت اسلام آباد ہائیکورٹ کے حالیہ فیصلے کو بھی نظر انداز کیا گیا ،دفاع کے حق سے محروم کر کے یہ فیصلہ سنایا گیا جو کہ افسوسناک ہے۔ اس طرح جلد بازی اور قانون کے تقاضوں کو پورا کئے بغیر یہ فیصلہ ظاہر کرتا ہے کہ اس فیصلے کے در پردہ وہ قوتیں ہیں جو ملک میں جمہوری نظام کو چلنے نہیں دینا چاہتی اور اس بات پر بھی تشویش ہے کہ حکومتی اتحاد میں شامل جو سیاستدان اس عمل کا ساتھ دے رہے ہیں۔