اسلام آباد (محمد صالح ظافر، خصوصی تجزیہ کار) ایک حلقے کا خیال ہے کہ راجہ ریاض احمد نے اس نام کی پرچی اپنی جیب میں ڈال رکھی ہے جو انہیں راولپنڈی سے موصول ہوئی ہے وہ عین آخری لمحات میں اسے کھول کر شہباز شریف کے سامنے رکھ دیں گے۔
عبوری وزیراعظم شہباز شریف اور سابق قائد حزب اختلاف کے درمیان نگراں وزیراعظم کے تقرر کے حوالے سے آئندہ چوبیس گھنٹے میں کسی حتمی مہم پر مفاہمت نہ ہوسکی تو اس کا اختیار دونوں کے ہاتھ سے نکل جائے گا پھر پارلیمانی کمیٹی کے نمائندہ ایک مرحلے کے بعد فیصلے کا اختیار الیکشن کمیشن کے پاس چلا جائے گا، جس نے قبل ازیں پنجاب کے موجودہ نگراں وزیراعلیٰ محسن نقوی کا بھی چنائو کیا تھا۔
الیکشن کمیشن کے پاس پنجاب کا معاملہ اس وقت پہنچا تھا جب اس وقت کے وزیراعلیٰ پرویز الٰہی اور حمزہ شہباز میں مفاہمت نہیں ہوسکی تھی اور صوبائی اسمبلی کی مشترکہ کمیٹی بھی ناکام رہی تھی۔
قابل اعتماد آئینی ذرائع نے بتایا ہے کہ راجہ ریاض احمد گزشتہ ایک ہفتے سے روزانہ کی بنیاد پر شہباز شریف سے تبادلہ خیال کرتے آئے ہیں ان کے درمیان ہر سیاسی معاملے میں کامل مفاہمت پائی جاتی ہے تاہم نگراں وزیراعظم کے تقرر کا اعلان اس وقت ہوگا جب شہباز شریف اس کی منظوری دیں گے۔
ایک حلقے کا خیال ہے کہ راجہ ریاض احمد نے اس نام کی پرچی اپنی جیب میں ڈال رکھی ہے جو انہیں راولپنڈی سے موصول ہوئی ہے وہ عین آخری لمحات میں اسے کھول کر شہباز شریف کے سامنے رکھ دیں گے۔
یہ اس قیاس آرائی کا حصہ ہے جو پورے ملک میں ایسے افراد نے پھیلا رکھی ہے جو حقیقی صورتحال سے مکمل طور پر بے خبر ہیں۔ سنجیدہ مبصرین کا خیال ہے کہ اگر راولپنڈی نے اپنا کوئی نام منوانا ہے تو وہ کسی تردد میں مبتلا ہوئے بغیر اسے شہباز شریف کو سونپ دیں گے جن کی کتاب میں ان کیلئے انکار ممکن ہی نہیں ہے۔
ان مبصرین کا کہنا ہے کہ حتمی نام لندن اور راولپنڈی کے درمیان طے ہونا ہے یا طے ہوچکا ہے مشاورت کے موجودہ سلسلے اور اس میں پیدا ہونے والا نام نہاد رخ محض اسموک اسکرین ہے اس اسموک اسکرین کے عقب سے نام نمودار کرایا جائیگا۔
سابق حکمراں اتحاد اور طاقتور حلقوں کے درمیان مفاہمت بدستور موجود ہے اس کا سلسلہ آئندہ بھی جاری رہنے کا امکان ہے۔ ملک کی اقتصادی ترقی اور خارجہ محاذ پر دونوں نے جس حکمت عملی پر اتفاق کر رکھا ہے اس پر عملدرآمد جاری رکھنے کیلئے ضروری ہے کہ اس مفاہمت کو مزید مستحکم بنایا جائے اور انداز حکمرانی کا تسلسل برقرار رکھا جائے۔
ذرائع کے مطابق ازروئے آئین وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف ہفتہ اور اتوار کی درمیانی شب بارہ بجے تک باہم مشاورت سے نگراں وزیراعظم کے تقرر کے مجاز ہیں اتوار شروع ہونے کے بعد نامزدگی کا اختیار اس آٹھ رکنی کمیٹی کو منتقل ہوجائے گا جس میں دونوں طرف کے چار چار ارکان پارلیمنٹ شامل ہونگے اس میں فریقین قومی اسمبلی اور سینیٹ کے دو دو ارکان کو نامزد کریں گے جن کی صوابدید پر مزید تین دن ہونگے۔