لندن (مرتضیٰ علی شاہ/ٹی وی رپورٹ)سابق وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنے بڑے بھائی میاں نواز شریف سے ایون فیلڈلندن میں ڈھائی گھنٹے ملاقات کی جس میں سیاسی صورتحال خصوصا نواز شریف کی وطن واپسی اور انتخابات کی حکمت عملی پر بات چیت کی گئی، ملاقات میں سلیمان شہباز اور حسن نواز بھی موجود تھے، صدر علوی کی ٹوئٹ سے پاکستان کے آئینی بحران میں پڑ جانے کے بعد سابق وزیراعظم شہباز شریف نے صدر عارف علوی کے طرز عمل کی باضابطہ انکوائری کا مطالبہ کردیا۔ شہباز شریف نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ شفاف تحقیقات کے ذریعے حقائق کا تعین کرنے کیلئے عارف علوی کے رویے کی شفاف انکوائری ہونی چاہیے۔ شریف نے کہا کہ انکوائری میں واضح ہونا چاہیے کہ صدر کے عملے نے غلطی کی یا صدر نے جھوٹ بولا۔ انہوں نے وضاحت کی کہ قانون کے مطابق وزرائے اعظم اور دیگر عہدیداروں کو سمریوں اور بلوں پر دستخط کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک وزیر اعظم کے طور پر کسی کو ہمیشہ دستخط کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، صدر کو بھی اسی طرح اپنے دستخط کرنے ہوتے ہیں۔ شہباز شریف نے کہا کہ ریاستی کاروبار زبانی یا غیر رسمی طریقے سے نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ صدر یا تو کسی بل کو مسترد کرتے ہیں یا منظور کرتے ہیں، وہ اس پر دستخط کرتے ہیں، زبانی کچھ نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ صدر علوی ریاست کے اعلیٰ ترین آئینی عہدے پر فائز ہیں اور سچائی کا تعین کرنے کے لیے انکوائری کی ضرورت ہے۔ شہباز شریف نے سوال کیا کہ صدر عارف علوی اتنی دیر خاموش کیوں رہے؟ انہوں نے صدر سے کہا کہ وہ وضاحت کریں کہ وہ اپنا کام کرنے میں کیوں ناکام رہے اور صرف ایک خاص وقت پر چیزوں کو یاد رکھنے کا دعویٰ کیا۔ شریف نے سوال کیا کہ صدر علوی نے قواعد پر عمل کیوں نہیں کیا اور اگر انہوں نے بل واپس کئے تھے تو انہیں یہ واضح کرنا چاہیے تھا۔ سابق وزیراعظم اپنے علاج اور بڑے بھائی نواز شریف سے ملاقات کے لیے 10 روز سے لندن میں موجود ہیں۔ صدر کے سیکرٹری کے عہدے سے ہٹائے جانے کی درخواست کے چند گھنٹے بعد وقار احمد نے ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے نہ ہی آفیشل سیکرٹس (ترمیمی) بل 2023 اور پاکستان آرمی (ترمیمی) بل 2023 کی منظوری دی اور نہ ہی انہیں دوبارہ غور کے لیے پارلیمنٹ میں واپس لانے کا تحریری فیصلہ دیا۔ صدر کو بھیجے گئے خط میں احمد نے بتایا کہ پاکستان آرمی (ترمیمی) بل 2 اگست کو موصول ہوا اور 3 اگست کو صدر کو بھیجا گیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ صدر علوی کے پاس 11 اگست تک بل پر مشورہ دینے کے لیے 10 دن کا وقت تھا۔ دریں اثناء سرکاری راز (ترمیمی) بل 8 اگست کو موصول ہوا اور 9 اگست کو صدر کے دفتر بھیجا گیا۔ خط میں یہ بھی کہا گیا کہ نوٹ میں واضح طور پر کہا گیا تھا کہ وزیر اعظم کا مشورہ 08-08-2023 کو موصول ہوا تھا اور 10دن کا وقت 17.08.2023 (جمعرات) کو مکمل ہو جائے گا۔ تاہم خط میں مزید کہا گیا کہ صدر نے نہ تو بل کی منظوری دی اور نہ ہی اس بل کو پارلیمنٹ سے دوبارہ غور کے لیے واپس کرنے کا تحریری فیصلہ دیا۔