اسلام آباد (نمائندہ جنگ/جنگ نیوز) اسلام آباد ہائی کورٹ نے توشہ خانہ کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی کی سزا معطلی کی درخواست کی سماعت آج تک ملتوی کر دی۔ دوران سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کا یہ بنچ ٹرائل کورٹ اور سپریم کورٹ کے درمیان سینڈوچ بن چکا ہے، ہمیں سپریم کورٹ کا آرڈر بھی ملا ہے، غلطی ہوئی ہے لیکن ان کو اعتماد دینے کی ضرورت ہے، الیکشن کمیشن کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ توشہ خانہ کیس ٹیکس ریٹرن کا نہیں، غلط ڈیکلریشن دینے کا ہے۔ چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ گوشوارے تو اپنے کنسلٹنٹ کی مشاورت سے جمع کرائے جاتے ہیں۔ گزشتہ روز سماعت کے دوران چیئرمین پی ٹی آئی کے وکلاء لطیف کھوسہ، بیرسٹر گوہر علی، شیر افضل مروت اور دیگر جبکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے وکیل امجد پرویز عدالت میں پیش ہوئے۔ لطیف کھوسہ ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ خواجہ حارث پیش نہیں ہو رہے، ان کے منشی کو اغواء کیا گیا تھا، خواجہ حارث کا اس سے متعلق بیان حلفی دے رہا ہوں۔ چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ہمیں سپریم کورٹ کا آرڈر بھی ملا ہے، کھوسہ صاحب ماتحت عدلیہ ہے، غلطی ہوئی ہے لیکن ان کو اعتماد دینے کی ضرورت ہے۔ لطیف کھوسہ ایڈووکیٹ نے کہا کہ ہم نے سپریم کورٹ کے سامنے معاملہ رکھا تھا کہ پہلے دائرہ اختیار دیکھا جائے، سیشن جج نے اس عدالت کے فیصلہ پر عملدرآمد نہیں کیا، چیئرمین پی ٹی آئی کی تین گراؤنڈز پر سزا معطلی کیلئے دلائل دوں گا، سب سے پہلے عدالتی دائرہ اختیار کا تعین ہونا ضروری تھا، سب سے پہلے عدالت کو دائرہ اختیار طے کرنا ہے، اس کیس میں سیکرٹری الیکشن کمیشن ڈسڑکٹ الیکشن کمشنر کو اتھارٹی دے رہا ہے، ٹرائل کورٹ نے میرے موکل کو 3 سال کی سزا سنائی ہے، سیشن کورٹ براہ راست کمپلینٹ کو نہیں سن سکتی، الیکشن ایکٹ کے تحت الیکشن کمیشن کو شکایت دائر کرنے کا اختیار دیتا ہے، چیئرمین الیکشن کمیشن اور چار ممبران کمیشن ہی شکایت دائر کرنے کے مجاز ہیں۔ میرے موکل کے خلاف شکایت سیکرٹری الیکشن کمیشن نے دائر کردی ہے۔ سیکرٹری الیکشن کمیشن کو شکایت فائل کرنے کا کوئی اختیار نہیں، الیکشن کمیشن اپنے کسی افسر کو کمپلینٹ دائر کرنے کا مجاز قرار دے سکتا ہے، اس کیس میں سیکرٹری الیکشن کمیشن نے ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنر کو کمپلینٹ دائر کرنے کا کہا، چیئرمین پی ٹی آئی کو ٹرائل کورٹ نے تین سال کی سزا سنائی، صدر پاکستان نے 14 اگست کو قیدیوں کی چھ ماہ سزا معاف کی، چیئرمین پی ٹی آئی کی چھ ماہ کی سزا معاف کی جاچکی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ الیکشن کمیشن کا کمپلینٹ دائر کرنے کا اجازت نامہ قانون کے مطابق نہیں؟ چیف جسٹس عامر فاروق نے وکیل سے کہا کہ آپ کہتے ہیں کہ delegation اور authorization قانون کے مطابق نہیں، اسلام آباد ہائیکورٹ نے ٹرائل کورٹ کے فیصلے کے خلاف ہماری اپیل منظور کی، ہائیکورٹ نے درخواست دوبارہ فیصلہ کرنے کیلئے ٹرائل کورٹ کو بھیجی۔ لطیف کھوسہ نے کہا کہ کمپلینٹ ٹرائل کیلئے ڈائریکٹ سیشن جج کے پاس نہیں جاسکتی، قانون میں طریقہ کار دیا گیا ہے کہ کمپلینٹ پہلے مجسٹریٹ کے پاس جائے گی، اسلام آباد ہائیکورٹ کا چیئرمین پی ٹی آئی کی اپیل منظوری کا فیصلہ 4 اگست کی شام ملا، 5 اگست کو خواجہ حارث کے منشی کو اغواء کیا گیا، خواجہ حارث کا بیانِ حلفی موجود ہے، خواجہ حارث نے وجہ لکھی کہ کیوں وہ ٹرائل کورٹ کے سامنے پیش نہیں ہوسکے، اسلام آباد ہائیکورٹ نے ٹرائل کورٹ کو کیس قابلِ سماعت ہونے پر دوبارہ دلائل سننے کا حکم دیا، ٹرائل کورٹ نے ہائیکورٹ کے جج کے فیصلے کی خلاف ورزی کی، ہمارا اعتراض یہ بھی ہے کہ الیکشن کمیشن کی کمپلینٹ درست فورم پر دائر نہیں کی گئی، الیکشن کمیشن کی کمپلینٹ مجسٹریٹ کی عدالت میں دائر کی جا سکتی تھی، ہائیکورٹ نے حکم دیا کہ ٹرائل کورٹ فیصلہ کرتے ہوئے اٹھائے گئے سوالات کا بھی جواب دے، ٹرائل کورٹ نے ہائیکورٹ کے احکامات کو نظرانداز کیا، سیشن جج جو ہے وہ الیکشن کمیشن کی شکایت پر براہ راست سن ہی نہیں سکتا۔ لطیف کھوسہ نے سپریم کورٹ کے مختلف فیصلوں کے حوالے دیتے ہوئے کہا کہ شکایت پہلے مجسٹریٹ کے پاس جائے گی، مجسٹریٹ سیشن کورٹ کو بھیجے گا، ہم سیشن کورٹ کی جانب سے ٹرائل کرنے کو تو چیلنج ہی نہیں کر رہے، ٹرائل سیشن کورٹ ہی کرے گی لیکن براہ راست نہیں کرسکتی۔ لطیف کھوسہ ایڈووکیٹ نے کہا کہ ٹرائل کورٹ کا آرڈر غلطیوں کے باعث برقرار نہیں رہ سکتا، استدعا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی سزا معطل کر دی جائے، سزا کالعدم قرار دینے کی اپیل پر دلائل کیلئے ہم دوبارہ عدالت کے سامنے آئیں گے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ٹرائل کورٹ کے فیصلے میں ان تمام ایشوز پر فیصلہ دیا گیا؟ لطیف کھوسہ ایڈووکیٹ نے کہا کہ بالکل نہیں، جو فیصلہ انہوں نے دیا تھا وہ ہائی کورٹ کالعدم قرار دے چکی، میں عدالت سے یہ استدعا کروں گا یہ ٹرائل کورٹ کا فیصلہ معطل کیا جائے، سپریم کورٹ کی آبزرویشن بھی ہے میں اس پر نہیں جاؤں گا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ حتمی فیصلے میں کیا ٹرائل کورٹ نے وجوہات دی ہیں؟ لطیف کھوسہ ایڈووکیٹ نے کہا کہ جی ٹرائل کورٹ نے وجوہات نہیں دیں، ٹرائل کورٹ کے جج نے آپ کو اگنور کیا ، سوری آپ کے فیصلے کو اگنور کیا۔ لطیف کھوسہ کے اس جملہ پر کمرہ عدالت میں قہقہہ لگ گیا۔ لطیف کھوسہ ایڈووکیٹ نے کہا کہ سیشن عدالت کے فیصلے میں خرابیاں ہی کافی ہیں کہ اس کو کالعدم قرار دے دیا جائے۔ چیف جسٹس نےاستفسار کیا کہ کیا ہائیکورٹ کے اٹھائے گئے نکات کے جوابات حتمی فیصلے میں موجود ہیں؟ لطیف کھوسہ نے کہا کہ نہیں نہیں نہیں، ایڈیشنل سیشن جج صاحب نے مکمل طور پر آپ کے احکامات کو نظر انداز کیا ہے، ہم نے اپنے دفاع میں گواہان کی فہرست دی، عدالت نے گواہان کو غیر متعلقہ قرار دے دیا، گواہان کی فہرست کا جائزہ لئے بغیر انہوں نے فہرست مسترد کر دی، معذرت کے ساتھ آپ نے بھی ٹرائل کورٹ کو حتمی فیصلہ دینے سے نہیں روکا، جب ہائیکورٹ میں معاملہ زیر سماعت ہو تو ہمیشہ ٹرائل کورٹ کو حتمی فیصلہ کرنے سے روکا جاتا ہے۔ اس پر جسٹس طارق محمود جہانگیری نے کہا کہ ٹرائل کورٹ نے دفاع کے گواہوں کو کس بنیاد پر غیرمتعلقہ کہا؟ کس بنیاد پر ٹرائل کورٹ نے گواہان کی فہرست کو مسترد کیا؟ جس پر لطیف کھوسہ ایڈووکیٹ نے کہا کہ میں وہ آرڈر پڑھ دیتا ہوں، ٹرائل کورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی کے گواہوں کو غیرمتعلقہ قرار دے دیا، ٹرائل کورٹ نے گواہوں کو جانچے بغیر انہیں اسی روز غیرمتعلقہ قرار دیا، ٹرائل کورٹ نے گواہوں کو غیرمتعلقہ قرار دینے کی وجہ لکھی ہی نہیں، کیا فوجداری تاریخ میں ایسا کبھی ہوا ہے؟ حق دفاع ختم کرنے کے ٹرائل کورٹ فیصلے کے خلاف درخواست پر نوٹس جاری ہوچکا تھا۔ لطیف کھوسہ نے چیف جسٹس سے کہا کہ اگر ہائی کورٹ نے نہیں روکا پھر بھی جج کو حتمی فیصلہ نہیں دینا چاہئے تھا۔ عدالت کے مطابق گواہان کا تعلق انکم ٹیکس معاملات سے ہے۔ عدالت نے کہا کہ یہ عدالت انکم ٹیکس کا معاملہ نہیں دیکھ رہی۔ عدالت نے کہا وکیل دفاع گواہان کو کیس سے متعلقہ ثابت کرنے میں ناکام رہےِ۔ اس بنیاد پر ٹرائل کورٹ نے گواہان کی فہرست کو مسترد کیا، جج صاحب نے کہا گواہان آج عدالت میں بھی موجود نہیں، گواہ اس روز کراچی میں موجود تھے، عدالت نے پوچھا آپ کیوں پیش کرنا چاہتے ہیں گواہان کو؟ میرے گواہ ہیں، میں اپنے خرچے پر پیش کر رہا ہوں، آپ کون ہوتے ہیں پوچھنے والے؟ 4 اگست کو آپ کا آرڈر آیا، آپ نے قابل سماعت کا معاملہ ریمانڈ بیک کیا، 5 تاریخ کو میں نے آپ کا آرڈر سپریم کورٹ چیلنج کر دیا، خواجہ حارث کے کلرک کو اغوا کرنے کی کوشش کی گئی، خواجہ حارث نے چیف جسٹس سپریم کورٹ کے نام درخواست لکھی اور معاملہ بتایا، خواجہ صاحب 12 بج کر 15 منٹ پر ٹرائل کورٹ پہنچ گئے، جج صاحب نے کہا اب ضرورت نہیں، آپ آرڈر سنیں، 12 بج کر 30 منٹ پر جج صاحب نے شارٹ آرڈر سناتے ہوئے تین سال کی سزا سنا دی، 12 بج کر 35 منٹ پر پتہ چلا لاہور پولیس گرفتار کرنے پہنچ گئی، فیصلے کے پانچ منٹ بعد گرفتاری کیلئے پہنچ گئے، مجھے چیئرمین پی ٹی آئی نے بتایا میرے گھر کے دروازے توڑے، ان کے واش روم کے دروازے توڑے گئے، چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل لطیف کھوسہ کے دلائل مکمل ہونے پر چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز ایڈووکیٹ سے کہا کہ کیا آپ نے کچھ کہنا ہے؟ جس پر امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ کھوسہ صاحب میرے نکاح کے گواہ بھی ہیں، امجد پرویز کی بات پرکمرہ عدالت میں قہقہہ لگ گیا۔ امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ یہ مجھے کہہ رہے ہیں کہ آپ کی بحث پانچ منٹ سے زیادہ نہیں ہونی چاہئے۔