• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

15 مئی کو پاور شو عدلیہ کی آزادی پر براہ راست حملہ تھا، سپریم کورٹ، بنچ پر PDM حکومت کے اعتراضات مسترد

اسلام آباد (نیوز ایجنسیاں) سپریم کورٹ آف پاکستان نے آڈیو لیکس کمیشن کیخلاف درخواست سننے والے بینچ پر پی ڈی ایم حکومت کے اعتراضات مسترد کردیئے، عدالت نے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا لکھا 32صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا، فیصلے میں کہاگیا ہے کہ 15مئی کو وفاقی حکومت کی مدد سے پاور شو عدلیہ کی آزادی پر براہ راست حملہ تھا،15مئی کو حکومتی اتحادی جماعتوں نے سپریم کورٹ کے باہر مظاہرے میں چیف جسٹس کو سنگین دھمکیاں دیں، جس کا مقصد چیف جسٹس کو بینچ سے الگ کرنا تھا، وزراء نے ججز کیخلاف بیان دیئے، حکومت 4 اپریل کا فیصلہ چیلنج کرنے کے بجائے الیکشن کمیشن کی نظرثانی اپیل کے پیچھے چھپ گئی، عدالتی فیصلے نہ ماننے پر وفاقی حکومت کیخلاف کوئی تادیبی کارروائی نہ کی،تحمل کا مظاہرہ کیا۔ چیف جسٹس پاکستان کی جانب سے تحریر کردہ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ 3ججز پر اٹھائے گئے اعتراضات کی قانون کی نظر میں کوئی اہمیت نہیں،بنچ پر اعتراض کی درخواست اچھی نیت کے بجائے ہراساں کرنے کیلئے دائر کی گئی،عدالت نے نوٹ کیاوفاق نے مختلف ہتھکنڈے استعمال کرکے تاخیر کی، وفاقی حکومت نے چالوں اورحربوں سے عدالتی فیصلوں میں تاخیر کی، وفاقی حکومت کی جانب سے عدالت کی بے توقیری کی گئی،عدالت کی بے توقیری کا سلسلہ یکم مارچ 2023سے شروع کیا،جب یہ کہا گیا 4-3کی اکثریت سے اسپیکر کی درخواست مسترد کی، وفاقی حکومت 4اپریل کا فیصلہ چیلنج کرنے کے بجائے الیکشن کمیشن اپیل کے پیچھے چھپ گئی،اس کا مقصد اپنی بے عملی کو جواز دینا تھا۔عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہےکہ 15 مئی کوپنجاب اسمبلی میں14مئی کو انتخابات کے عدالتی فیصلے پر رکاوٹ کیلئے مظاہرہ کیاگیا،اس مظاہرے کا پریشان کن پہلو حکومت کی اتحادیوں کو عدالت کے خلاف احتجاج میں دی گئی مدد تھی، ریڈ زون میں اس طرح کے احتجاج کی سختی سے ممانعت ہے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ حکومتی مشینری نے مظاہرین کے ہجوم کو داخلے کی سہولت فراہم کی، وفاقی حکومت ان کی بہتان تراشیوں پر خاموش تماشائی بنی رہی، مقصد عدالت اور ججوں پر دبائو ڈالنا تھا کہ وہ کوئی بھی فیصلہ نہ کریں یا حق میں فیصلہ دیں۔وفاقی حکومت کی مدد سے پاورشو عدلیہ کی آزادی پر براہ راست حملہ تھا۔ آئین کے آرٹیکل 19 کے ذریعے پاکستانی عوام کو اظہارِ رائے کی آزادی ایک بنیادی حق ہے، اظہارِ رائے کی آزادی کا حق معقول اور درست انداز میں استعمال ہونا چاہیے۔ فیصلے میں کہا گیا ہےکہ وفاقی حکومت کے عدالتی فیصلوں پرعمل درآمد میں عدم تعاون پر تحمل کیا، عدالتی فیصلے نہ ماننے پر وفاقی حکومت کیخلاف کوئی تادیبی کارروائی نہیں کی، آڈیو لیکس آنے پر وفاقی حکومت اور اتحادی جماعتوں نے عدالتی فیصلوں اورکارروائی پر دھمکیاں دیں، 4 اپریل کو سپریم کورٹ نے پنجاب میں14 مئی کوانتخابات کرانے کا حکم دیا تھا، 15 مئی کو حکومت کی اتحادی جماعتوں نے سپریم کورٹ کے باہرجارحانہ مظاہرہ کیا۔ فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ اسکے بعد پارلیمنٹ نے سپریم کورٹ ریویو آف ججمنٹ اینڈ آرڈر قانون منظور کیا،قانون کو سپریم کورٹ غیرآئینی قرار دے چکی،وفاقی حکومت نے آئینی مقدمات سے ججز کو الگ کرنے کیلئے درخواستیں دائر کیں، کسی عدالتی فیصلے پر حتمی فیصلے کی پابندی لازم ہے، فیصلے پر عملدرآمد نہ کرنے پر آئین میں نتائج دیئے گئے ہیں،متفرق درخواست عدلیہ پر حملہ ہے، متفرق درخواست مسترد کی جاتی ہے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ ریڈ زون کے علاقے میں احتجاج پر پابندی عائد تھی، وفاقی حکومت نے جلسے کے انعقاد کے لیے سہولت فراہم کی، حکومتی مشینری نے مظاہرین کو ریڈ زون میں داخل ہونے کے لیے سہولت فراہم کی۔

اہم خبریں سے مزید