اسلام آباد (انصار عباسی) پیپلزپارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو اور ان کے والد اور سابق صدر آصف علی زرداری کے متضاد بیانات دراصل،’’ Good Cop Bad Cop ‘‘(ایک ساتھی ایک دشمن) کا کھیل ان کی حکمت عملی کا حصہ ہے۔
اندر کے لوگوں کا دعویٰ ہے کہ بلاول اور زرداری ایک ہی سکے کے دورخ ہیں اور جو یہ لوگ کر رہے ہیں وہ ان کی سیاسی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پارٹی کے اندر ہر کوئی جانتا ہے کہ کون کسے بنارہا ہے اور کس کی بات ماننی ہے۔
ذریعے نے دونوں کے مابین اختلافات کو مسترد کرتے ہوئے اصرار کیا کہ زرداری جو کچھ کہتے ہیں وہ پارٹی پالیسی ہوتی ہے اور بلاول جو کچھ کہتا ہے وہ عوام کے لیے ہوتا ہے۔ زرداری کے حوالے سے اس ذریعے کا کہنا تھا کہ وہ پاپولر رہنما نہیں لیکن وہ پیپلزپارٹی کا سیاسی ذہن ہیں۔
جو فیصلہ وہ کرتے ہیں وہ حتمی ہوتا ہے اور پارٹی میں ہر کوئی اسے ہی جانتا ہے۔ دوسری جانب بلاول بھٹو پاپولر ہے اور اسے ان ایشوز پر ایسی باتیں کرنے کی ذمہ داری دی جاتی ہے جس سے عام عوام کی توجہ حاصل کی جاسکے۔
اس ذریعے نے یہ بھی کہا کہ پیپلزپارٹی کے کو چیئرمین نے محاذ آرائی کی پالیسی سے خاصے سبق حاصل کیے ہیں۔ بلاول اور زرداری جمعہ کے بیانات سے ایک دوسرے کے خلاف جاتے نظر آرہے ہیں۔ پارٹی کے چئیرمین نے الیکشن کمیشن آف پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ عام انتخابات 90 دن میں کرائے جائیں۔
بلاول نے لفظ اسٹیبلشمنٹ منہ سے نکالے بغیر کہا کہ وہ کٹھ پتلیاں بنانے والوں کو ایک پیغام دینا چاہتے ہیں کہ وہ پاکستانی عوام پر تجربات کرنا بند کریں اور لوگوں کو اپنے فیصلے کرنے دیں۔ بلاول نے کہا کہ ہر شخص کو چاہیے کہ وہ اسے تسلیم کرے۔ لوگ خواہ نواز شہباز کو چنیں، پیپلزپارٹی یا پی ٹی آئی کو انہیں تسلیم کرنا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پیپلزپارٹی کا مقابلہ مہنگائی ، بیروزگاری اور غربت سے ہے ۔ ہفتہ کو پارٹی کے شریک چیئرمین زرداری الیکشن کمیشن کے دفاع میں سامنے آئے اور انتخابات کرنے والے ادارے پر اپنے مکمل اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نئی مردم شماری کے بعد نئی حلقہ بندیوں کی مشق ایک لازمی چیز بن گئی ہے۔
زرداری کے بیان کو پیپلزپارٹی نے اپنے سوشل میڈیا اکائونٹس کے ذریعے نشر کیا ۔ زرداری نے اس پر بھی زور دیا کہ سیاست پر معیشت کو ترجیح دی جانی چاہیے۔ سابق صدر نے نگران حکومت سے یہ بھی کہا کہ وہ فوج کی پشتپانی میں چلنے والے ایس آئی ایف سی کے منصوبے مکمل کرے۔
زرداری کے بیان کو ایک طرح سے بلاول کے لیے جھاڑ کے طور پر دیکھا جارہا ہے جنہوں نے جلد انتخابات کا تقاضا کیا تھا۔ زرداری نے جو کچھ کہا ہے کہ وہ ان معیشت کی درستی کے لیے انتخابات میں تاخیر کے شبہے کو آگے بڑھاتا ہے۔
ہفتے کو بلاول بھٹو نے یہ چونکا دینے والا بیان دیا کہ تازہ حلقہ بندیوں پر ان کا بیان ان کا ذاتی بیان تھا اور وہ پارٹی پالیسی نہیں ہے اور جب ان سے بیانات کے اختلاف کے حوالے سے دریافت کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ زرداری سے پوچھاجائے کہ اس بیان سے ان کا کیا مطلب ہے۔
انہوں نے پیپلزپارٹی کی گزشتہ مجلس عامہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس فورم میں انتخابات کے وقت کے حوالے سے آرا کا جائزہ لیا گیا تھا اور پارٹی کے تمام قانونی ماہرین نے اجلاس کو بتایا تھاکہ آئین یہ واضح کرتا ہے کہ انتخابات اسمبلیوں کی تحلیل کے 90 دن کے اندر ہونا ہوتے ہیں۔
بلاول نے کہا کہ خاندانی معاملات میں زرداری صاحب کی بات ماننے کے مکلف ہیں لیکن سیاسی معاملات اور آئین اور پارٹی پالسیی کے حوالے سے وہ اپنے کارکنوں سینٹرل ایگزیکٹو کے فیصلوں پر عملدرآمد کے پابند ہیں۔