فیصل آباد (شہباز احمد) NA110، راجہ ریاض کے اپنے حلقے میں لیگی سیٹ2018ءسے خالی، جنرل الیکشن میں لیگی امیدوار رانا افضل کو اسی حلقہ سےہرایا ،جو انتقال کرچکے ہیں ، قومی اسمبلی کے سابق قائد حزب اختلاف راجہ ریاض احمد 2018ء کے عام انتخابات میں بطور پی ٹی آئی امیدوار حلقہ این اے 110 سے مسلم لیگ ن کے امیدوار و سابق ایم این اے رانا محمد افضل کے مقابلے میں 114215 ووٹ لے کر پہلی مرتبہ رکن قومی اسمبلی بنے جبکہ لیگی رہنما رانا افضل اسی سال بعد میں علالت کے باعث انتقال کرگئے تھے، راجہ ریاض نےاب باقاعدہ طور پر مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کر لی ہے ، ان کی شمولیت پر اگرچہ ن لیگ کے مقامی رہنماوں اور کارکنوں کی جانب سے کسی خوشی یا ناراضی کا کھل کر اظہار نہیں کیا گیا لیکن رانا افضل کی وفات کے بعد اس حلقے میں مسلم لیگ ن کے پاس کسی مضبوط امیدوار کے لئے جگہ پہلے ہی خالی تھی ، راجہ ریاض کو تحریک انصاف کے ساڑھے تین سال دور حکومت میں وہ اہمیت حاصل نہ ہو سکی جس کے وہ متمنی تھے۔ اس کے ردعمل میں انہوں نے قومی اسمبلی کے فورم پر اپنی ہی جماعت کی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ علاوہ ازیں تحریک انصاف کی حکومت کے وزیر خزانہ حفیظ شیخ کے مقابلے میں پی ڈی ایم کے متفقہ امیدوار یوسف رضا گیلانی کو سینیٹر بنانے کے لئے ووٹ دینے والوں میں بھی ان کا نام لیا جاتا رہا ہے۔ ڈیڑھ سال قبل جب پی ڈی ایم نے اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی تو تحریک انصاف چھوڑ کر اپوزیشن اتحاد کا ساتھ دینے والوں میں راجہ ریاض بھی شامل تھے۔ شہباز شریف کے وزیر اعظم بننے کے اپوزیشن لیڈر کا قرعہ فال راجہ ریاض کے نام نکلا اور اس طرح انہیں پنجاب اسمبلی اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر بننے کا منفرد اعزاز حاصل ہوا۔ بطور اپوزیشن لیڈر قومی اسمبلی میں راجہ ریاض کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو یہ کہنا بیجا نہ ہو گا کہ وہ تحریک انصاف اور عمران خان پر تنقید تک محدود رہے جبکہ شہباز شریف کی حکومت کے اقدامات سے متعلق انہیں لب کشائی کرتے ہوئے کم ہی دیکھا گیا۔ راجہ ریاض کے اپوزیشن لیڈر بننے پر یہ تنقید بھی ہوتی رہی ہے کہ اگر وہ آئندہ عام انتخابات میں مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر حصہ لینا چاہتے ہیں تو وہ شہباز شریف کی بطور وزیر اعظم کارکردگی کا محاسبہ کیسے کریں گے۔