• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

50 ہزار خطرناک ملزمان مفرور، نصف کا تعلق لاڑکانہ سے ہے، آئی جی سندھ کی رپورٹ

کراچی ( اسٹاف رپورٹر ) سندھ ہائی کورٹ نے حساس مقدمات میں 50ہزار سے زائد خطرناک مفرور ملزمان کے شناختی کارڈز اور بینک اکاؤنٹس فوری بلاک کرنے کا حکم دیدیا، آئی جی سندھ رفعت مختار نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ مفرور ملزمان کے اعتبار سے ضلع لاڑکانہ سرفہرست ہے جہاں نصف کے قریب 23ہزار سے زائد خطرناک مفرور ملزمان پولیس کو مطلوب ہیں، بانی متحدہ لندن سمیت 8ملزمان ملک سے باہر مفرور ہیں۔ جسٹس کے کے آغا نے کہا کہ صرف لاڑکانہ ڈویژن میں23ہزار مفرور ملزمان ہیں، ڈی آئی جی لاڑکانہ کیا کر رہے ہیں،مفرور ملزمان کو نہ پکڑنا بھی سنجیدہ جرم ہے، عدالت عالیہ نے آئندہ سماعت پر چیئرمین نادرا ، وزارت داخلہ ،فارن آفس اور اسٹیٹ بینک سے 23اکتوبر تک رپورٹ طلب کرلی۔ پیر کو سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس کے کے آغا کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس میں حماد صدیقی سمیت دیگر مفرور ملزمان کی عدم گرفتاری سے متعلق سماعت کی۔ آئی جی سندھ رفعت مختار عدالت کے روبرو پیش ہوئے اور صوبے بھر کے مفرور ملزمان سے متعلق رپورٹ عدالت میں پیش کردی۔ آئی جی سندھ کی رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ صوبے بھر میں 50ہزار58خطرناک ملزمان مفرور ہیں ان میں لاڑکانہ ڈویژن سر فہرست ہے جہاں نصف کے قریب یعنی 23ہزار سے زائد خطرناک مفرور ملزمان پولیس کو مطلوب ہیں۔صوبے سندھ میں مفرور ملزمان کی اتنی بڑی تعداد دیکھ کر عدالت نے اظہار حیرت کیا۔ جسٹس کے کے آغا نے ریمارکس دیئے کہ اس وقت صوبے میں کوئی سیاسی حکومت نہیں ہے ،ملزمان کی گرفتاری پر کوئی ایم این اے ایم پی اے مداخلت نہیں کریگا۔ اتنی بڑی تعداد میں مفرور ملزمان کی وجہ سے صوبے میں امن و امان کی صورتحال خراب ہے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ صرف لاڑکانہ ڈویژن میں 23ہزار مفرور ملزمان ہیں ڈی آئی جی لاڑکانہ کیا کررہے ہیں؟ آئی جی سندھ نے بتایا کہ میں نے 40دن پہلے چارج لیا ہے، ڈی آئی جی لاڑکانہ کو بھی حال ہی میں تعینات کیا گیا ہے۔ عدالت نے آئی جی سندھ سے استفسار کیا کہ مفرور ملزمان کی گرفتاری کیلئے کوئی حکمت عملی تو بنائی ہوگی؟ جسٹس کے کے آغا نےریمارکس دیئے کہ مفرور ملزمان کو گرفتار کرنا آپ کی ذمہ داری ہے ہم کسی اور آئی جی کا انتظار نہیں کریں گے۔ بیشتر کیسز میں مفرور ملزمان کے نام، پتے، ولدیت درست درج نہیں ہوتی ہے۔ منشیات کے کیسز میں تو صرف ملزم کا نام ہوتا ہے۔ وہی اگر انتظامی معاملات بہتر کر لیے جائیں تو جرائم میں کمی آسکتی ہے۔ لاڑکانہ ڈویژن میں اتنی بڑی تعداد میں مفرور ہونا سمجھ سے بالاتر ہے۔

اہم خبریں سے مزید