تاشقند (نیوز ایجنسیاں) نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ حکومت کے فوج سے بہت اچھے تعلقات ہیں، بہت سے چیلنجز میں ہمیں فوج سے نہ صرف اچھی تجاویز بلکہ عملدرآمد میں تعاون بھی ملتا ہے، ڈی جی آئی ایس آئی کی مدت ملازمت میں توسیع کا مقصد دہشت گردی کے بڑھتے واقعات کے پیش نظر حکومتی پالیسیوں کا تسلسل ہے، بھارت کی عدم دلچسپی کے باوجود پاکستان اپنی اور خطے کی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کیلئے تاپی گیس پائپ لائن منصوبہ مکمل کرنے کیلئے پرعزم ہے۔بھارت سے تعلقات کیلئے مسئلہ کشمیر کو حل کرنا ہو گا، غزہ میں تباہی کے اثرات خطے اور اس سے باہر تک پھیلنے کے نتائج خطرناک ہونگے، کسی ایک سیاسی گروہ کی حوصلہ افزائی یا حوصلہ شکنی ہماری پالیسی نہیں، پاکستان اور ازبکستان کے درمیان تجارتی حجم ایک ارب ڈالر تک لانا قلیل مدتی ہدف ہے۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے عرب نیوز اور خبر رساں ادارے اناطولیہ کو خصوصی انٹرویو میں کیا۔
نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ خطے میں ایک کھلا انسانی المیہ نظر آرہا ہے۔ اور اسکا اثر نہ صرف خطے میں بلکہ شاید خطے سے باہر بھی پڑیگا۔انہوں نے غزہ میں جنگ کے ’فوری‘ خاتمے پر زور دیا، وزیراعظم نے خوراک، ادویات اور دیگر ضروری اشیاء کی بلا تعطل فراہمی کیلئے انسانی راہداری کے قیام کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی)کے آئندہ خصوصی اجلاس میں شرکت کا منتظر ہے، او آئی سی کوغزہ کی صورتحال پر غور کرنا چاہیے اور اجتماعی ردعمل ظاہر کرنا چاہیے،بغیر دستاویزات مقیم افغان مہاجرین کو واپس بھیجنے کے پاکستان کے اقدام کا دفاع کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انکے ملک نے یہ فیصلہ تھوڑی تاخیر سے کیا، لیکن ہم سرحد پرآمد و رفت کو منظم کرنے کیلئے بہت زیادہ پرعزم ہیں۔
انہوں نے کہاکہ ہر ملک دوسرے ممالک کے شہریوں کی منظم آ مدورفت چاہتا ہے، طویل مدت میں یہ افغان شہریوں اور پاکستانیوں کے بہترین مفاد میں ہو گا کہ باقی دنیا کی طرح معمول کے مطابق منظم آمدورفت ہو، ترکیہ اور پاکستان کے درمیان دو طرفہ تعلقات کو شاندارقرار دیتے ہوئے انہوں نے ترکیہ اور پاکستان کے درمیان روابط اور تعاون کو بڑھانے پر زور دیا۔
انہوں نے کہا کہ تجارت، زراعت اور دفاع جیسے بہت سے شعبے ہیں جن میں تعلقات کو بہتر بنایا جا سکتا ہے اور کچھ راہداریوں کو ترقی دیکر ترکیہ ،پاکستان اور ایران کے درمیان رابطے کو بحال کیا جا سکتا ہے، جو تمام اقوام اور پورے خطے کو بہت سے مواقع فراہم کریگا۔ وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ تاپی کے حوالے سے ترکمانستان، افغانستان اور پاکستان کی طرف سے کافی جوش و خروش پایا جاتا ہے۔ یہ بھارتی معیشت کو توانائی کی سستی اور پائیدار فراہمی کو یقینی بنا سکتا ہے۔ لیکن میرا خیال ہے کہ بھارت کے ساتھ یا اسکے بغیر، ترکمانستان کی گیس کو اس خطے کے معاشی فائدے کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے، اور ہم اس ہدف کو حاصل کرنے کیلئے بہت زیادہ توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔7 ارب ڈالر کے اس منصوبے کا مقصد ترکمانستان کے گلکنیش اور ملحقہ گیس فیلڈز سے قدرتی گیس افغانستان، پاکستان اور بھارت تک پہنچانا ہے۔ ایشیائی ترقیاتی بینک اس منصوبے میں سہولت اور تعاون فراہم کر رہا ہے، جس میں 56انچ قطر کی 1,680 کلومیٹر (1,044 میل) پائپ لائن بچھانے کی تجویز ہے جسکے ڈیزائن کی گنجائش 33ارب مکعب میٹر سالانہ قدرتی گیس ترکمانستان سے افغانستان اور پاکستان کے راستے پاک بھارت سرحدتک پہنچائی جائیگی۔ دیرینہ حریف بھارت کیساتھ پاکستان کے دیرینہ کشیدہ تعلقات کے بارے میں بات کرتے ہوئے۔
وزیر اعظم نے کہاکہ کشمیر ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ایک تصفیہ طلب مسئلہ ہے، پاکستان کا روایتی موقف ہے کہ اسے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حل کیا جانا چاہیے، کشمیریوں کو اپنے مستقبل، اپنی تقدیر کا تعین کرنے کا پورا حق حاصل ہے اور پاکستان ہمیشہ سفارتی اور سیاسی طور پر انکے اس موقف کی حمایت کریگا، اگر دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانا ہے تو مسئلہ کشمیر کو حل کرنا ہوگا۔
انہوں نے مزید کہاکہ اگر خطے کو باہمی طور پر ایک دوسرے سے فائدہ اٹھانا ہےتو اسے معمول پر لانا ہوگا،ہم نے تین جنگیں لڑی ہیں، لیکن کیا دو ارب کی آبادی ہمیشہ کیلئے جنگ کی حالت میں رہ سکتی ہے؟