کراچی (ٹی وی رپورٹ) مسلم لیگ ن کے رہنما محمد زبیر نے کہا کہ جنرل باجوہ سے نواز یا مریم کیلئے فیور نہیں انصاف مانگاتھا، ن لیگ کا رہنما ہوں ، نواز یا مریم کا ترجمان نہیں ، شاہد خاقان کی طرح فیصلہ سازی نہیں کرسکتا، ٹیکس ریفارمز ضروری ہیں، موجودہ نظام سے ملک نہیں چل سکتا۔جیو نیوز کے پروگرام نیا پاکستان میں میزبان شہزاد اقبال سے گفتگو کرتے ہوئے مسلم لیگ نون کے رہنما محمد زبیر نے کہا کہ 2013 میں اسحاق ڈار کی رہنمائی میں مینوفیسٹو کے لیے اکنامک پالیسی میں نے ہی بنائی تھی ۔ میں مسلم لیگ نون کا رہنما ہوں مریم نواز اور نوازشریف کا ترجمان نہیں ہوں ۔ 2013کے الیکشن سے پہلے مسلم لیگ نون کی جو میڈیا پالیسی چلا رہے تھے ان تین لوگوں میں سے میں ایک تھا ۔ نوازشریف نے مجھے ایف بی آر چیئرمین کی آفر کی تھی الیکشن کے بعد وہ نہیں ہوا پھر مجھے بورڈ آف انویسٹمنٹ میں لے کر آئے وہ بہت اہم پوزیشن تھی۔ جب مشکل وقت آیا نااہلی کے بعد ہمیں پتہ تھا کہ اب ہماری باری نہیں آئے گی اس وقت پارٹی کے ساتھ کھڑا ہونا تھا۔مجھ سے کہا گیا کہ پریس کانفرنس کریں نوازشریف پر بے ایمانی کے الزامات لگائیں میں یہ بے ایمانی نہیں کرسکتا تھا پانچ سال وزیراعظم نوازشریف کے قریب رہا ۔بیگم اب بھی کہتی ہیں کہ نون لیگ چھوڑ دیں نہیں تو میں چھوڑ کر چلی جاؤں گی لیکن میں ابھی بھی نون لیگ میں موجود ہوں جیسے شاہد خاقان موجود ہیں یعنی کہ میں کسی فیصلہ سازی میں نہیں ہوں ۔ میں نے آفر کی تھی استعفیٰ کی پھر کاؤنٹر آفر یہ آئی تھی کہ سب استعفیٰ دیں جس سے سب پیچھے ہٹ گئے تھے ۔ پی ٹی آئی کے خلاف ہم نے بطور اپوزیشن محاذ کھڑا کرنا تھا میزبان شہزاد اقبال نے کہا مطلب آپ اتنی مفاہمت نہیں چاہتے تھے کہ نوازشریف کو لاڈلے اور سلیکٹڈ کے تانے پڑ رہے ہیں۔ اس کے جواب میں محمد زبیر نے کہا پاکستان آئین کے ذریعے ہی چلا چاہیے میں جب گورنر تھا اس وقت بھی یہی کہتا تھا کہ جو بھی آئین اور قانون ہے اس کے حساب سے سب معاملات ہونے چاہیں۔ میزبان شہزاد اقبال نے کہا سابق ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا تھا کہ محمد زبیر نے آرمی چیف سے ملاقات کی اور یہ سارا معاملہ بنا تھا اس ملاقات کے بعد خبریں آئیں کہ آپ کے معاملات پارٹی سے خراب ہو ئے محمد زبیر نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ نہیں ایسا کچھ بھی نہیں ہے ۔ شہزاد اقبال نے سوال کیا آپ کیا پیغام لے کر گئے تھے اس پر محمد زبیر نے کہا یہ بہت حساس موضوع ہے اس کو آپ رہنے دیں اور ظاہر سی بات ہے تین اور چار گھنٹے کی ملاقات ذاتی نوعیت کی نہیں تھی۔میری اس میٹنگ میں کوئی ذاتی بات نہیں ہوئی میرا انٹرسٹ یہ تھا کہ جب نوازشریف کو انصاف ملے گا تو ظاہر سے بات ہے پارٹی کو اور مجھے بھی اس سے فائدہ ہوگامیں ان کو داؤ پر لگا کر اپنے لیے کچھ لینے نہیں گیا تھا۔ میں نوازشریف یا مریم نواز کے لیے کوئی فیور نہیں بلکہ انصاف مانگنے گیا تھا۔ مریم نواز کو کیوں بلیک آؤٹ کیا گیا ہے ان کا ٹکر کیوں نہیں چل سکتامیں نے انہیں اس پر قائل کیا ۔ میرے اسٹبلشمنٹ سے کوئی تعلق نہیں تھا میں پارٹی ڈسپلین کے مطابق چل رہا تھا اور میں سمجھتا تھا پارٹی جو تہس نہس ہوئی ہے اس میں جنرل باجوہ کا کردار موجود تھا اور ہماری پارٹی کے ساتھ ظلم ہو رہا ہے میرا کام یہ نہیں تھا کہ اپنے فیور ڈھونڈتا۔میں اس وقت پارٹی لیڈر شپ کی مرضی سے وہاں گیا تھا اس میٹنگ سے پہلے میں نے اسٹبلشمنٹ سے رابطہ نہیں کیاتھا۔نگراں حکومت آئی ہے یقینا آرمی چیف بھی سپورٹ کر رہے ہیں جس کی وجہ سے کچھ استحکام آگیا ہے اسٹاک مارکیٹ ہو کرنسی مارکیٹ ہو ڈیسکورس کی پرفارمنس ریکوریز بہتر ہوگئی ہیں افغان ٹرانزٹ ٹریڈ وغیرہ لوگ کہتے ہیں ڈنڈا ہے میں اسکو گڈ گورننس سمجھتا ہوں ۔اسحاق ڈار کے نو مہینے میں بہت زیادہ مسائل ہوئے اور یقیناپالیسی فیصلے ہوتے ہیں۔