اسلام آباد ( قاسم عباسی )ٹرانسپیرنسی ڈیٹا سے پتہ چلتا ہے کہ سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے 1999 سے 2007 کے دور میں پاکستان نے کرپشن پریسپشن انڈیکس ( سی پی آئی )کے حوالے سے پاکستان نے بہت کم نمبر حاصل کیے جس سے کرپشن کی بڑی سطح کی نشاندہی ہوتی ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے28سالہ ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ 1996میں بینظیر بھٹو کے دور مین پاکستان 54 ممالک کی فہرست مین سے 53ویں نمبر پرآیا تھا جبکہ عمران خان کی قیادت میں چلنے والی پی ٹی آئی کی اتحادی حکومت (2018سے 2022کے دوران کرپشن کے حوالے سے پاکستان تقریباً 23کرپٹ ترین ممالک سے اوپر تھا۔ یہ جاننا ضروری ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مختلف ادوار میں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل جائزہ لیتی رہی ان کی تعدادبھی تبدیل ہوتی رہی۔ مثال کے طور پر ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے 1996میں 54ممالک کا جائزہ لیا تھا 2006میں 163ممالک کا جائزہ لیا گیا جبکہ 2024میں 180ممالک کا جائزہ لیا گیا۔ چنانچہ تاریخی تقابل کرپشن کے تاثر کی درست انعکاسی نہیں کر سکتا۔ ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ نواز لیگ کے 2013 سے 2018کے دور حکومت میں پاکستان نے کرپشن کے حوالے سے 15ممالک کو کرپشن پرسیپشن انڈیکس پر پیچھے چھوڑ دیا۔پی ایم ایل این کے پہلے سال کے دوران1997میں پاکستنا کا رینک بہتر ہوا اور پاکستان کرپٹ ترین ممالک کی فہرست میں 5ویں نمبر پر آگیاجبکہ اگلے ہی سال 1998میں یہ رینک مزید بہتر ہوا اور پاکستان 15واں کرپٹ ترین ملک قرار دیاگیا۔ پی ڈی ایم کے 2022سے 2023کے دور کے دوران پاکستان کو 180ممالک مین سے 48واں کرپٹ ترین ملک قرار دیا گیا جبکہ 2022میں پاکستان کا رینک 41تھا۔ 2018میں جب پی ٹی آئی اقتدار میں آئی تو پاکستان180ممالک کی فہرست میں64واں ملک تھا تاہم پاکستان نے کرپشن کے حوالے سے 23ممالک کو پیچھے چھوڑ دیا اور سی پی آئی انڈیکس پریہ 41واں کرپٹ ترین ملک بن گیا۔ 180 ممالک کی اس فہرست میں2019میں2020میں اور2021میں باالترتیب پاکستان کا نمبر61، 57اور 41تھا۔ نوازشریف حکومت کے پہلے سال 2013میں پاکستان 175ممالک میں 49ویں نمبر پر تھا، 2017 جو کہ نوازلیگ کی حکومت کا آخری سال تھا اس میں پاکستان کا رینک 49سے بڑھ کر 64ہوگیا تھا اور اس طرح پاکستان نے 15مزید ممالک کو پیچھے چھوڑ دیا۔ 2008میں پیپلزپارٹی کی حکومتک ے آغاز پر پاکستان کا سی پی آئی رینک 47تھا جو کہ گر کر36ہوگیا اور11 ممالک کرپشن میں پاکستان سے اوپر نکل گئے۔