اسلام آباد (نیوز ایجنسیاں) پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ عارف علوی پر آئین شکنی کے دو مقدمات ہونگے، ان پر ایک مقدمہ عدم اعتماد کے وقت اسمبلی توڑنے کا ہوگا اور دوسرامقدمہ آئین کے مطابق قومی اسمبلی اجلاس نہ بلانےکاہوگا،صدارت عارف علوی کے بس کی بات نہیں، مواخذے کے بجائے انتخابی عمل کے ذریعے عارف علوی کی جگہ دوسرا صدرلائینگے۔ جبکہ سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا کہنا ہے آئین سے کھیل کھیلا جارہا ہے، یہ اچھی سروایت نہیں، صدر علوی باعزت طریقے سے اجلاس بلا لیں آئین شکنی سے گریز کریں کل قومی اسمبلی کا اجلاس ضرور ہوگا۔ سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو میں بلاول بھٹو نے کہا کہ علوی صاحب نے آئین توڑا، عارف علوی آئین کو توڑتے ہوئے اپنا فرض نہیں نبھا رہے، صدر آئینی ذمہ داری پوری نہیں کرتے تو اسپیکر پوری کردینگے کیونکہ آئین میں لکھا ہے ہر حال میں 29 فروری کو اسمبلی اجلاس بلاناہے۔ چیئرمین پی پی نے کہا کہ ہم نے فیصلہ کیا جو ہمارے پاس ووٹ مانگنے آئے ہم نے دینگے، سنی اتحاد کونسل ہمارے پاس ووٹ مانگنے نہیں آئے تو کسی اور کی حکومت پر اعتراض کیسا، ہمارے پاس یہی آپشن ہے جو بات کررہے ہیں ان کو موقع دیں، میں نے کہا تھا وزیراعظم بنا تو سیاسی قیدیوں کو رہاکریں گے لیکن افسوس پاکستان کے عوام نے مجھے وہ مینڈیٹ نہیں دیا۔ بلاول کا کہنا تھا کہ صدر منتخب ہوکر آصف زرداری اپنےگورنرخودفائنل کریں گے، پیپلز پارٹی اپنے بارے میں سوچتی تو پتا نہیں کیا کیا کردیتے ، میں حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہوں میرے نمبر ایسے نہیں ، میں کہتا اب (ن) لیگ کے ساتھ کام نہیں کرتا تو عوام کابنیادی مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم سنی اتحاد کے شکرگزارہیں کہ انہوں نے مریم نواز اور مراد علی شاہ کی مخالفت نہیں کی، سنی اتحاد اور پی ٹی آئی کے شکرگزارہونا چاہیے۔ شہباز شریف بھی بلامقابلہ وزیراعظم بننے جارہے ہیں۔ دوسری جانب سابق وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ ممبران کے نوٹی فکیشن جاری ہونے کے بعد ہاؤس مکمل ہوچکا، صدر کے پاس قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کا اختیار اب نہیں رہا لہٰذا وہ عزت سے اجلاس بلا لیں اور آئین شکنی سے گریز کریں۔ اسلام آباد میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آئین کا آرٹیکل بڑا واضح ہے کہ 21 روز میں اسمبلی اجلاس طلب کیا جائے لیکن صدر نے اعتراض لگا کر سمری واپس کردی کہ ابھی ہاؤس مکمل نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہاؤس مکمل تب ہوتا ہے جب ممبرز کا نوٹیفکیشن ہوچکا ہو، جب نوٹیفکیشن ہی نہیں ہوا تو ہاؤس کے نامکمل ہونے کا کیا جواز ہے، اسپیکر نے ممبرز سے حلف لینا ہے، صدر کو چاہیے تھا باعزت طریقہ سے اجلاس سمن کرتے، 21 دن بعد صدر کے پاس قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کا اختیار اب نہیں رہا، قومی اسمبلی کا اجلاس خودبخود 29 فروری کو ہوگا۔