اسلام آباد (محمد صالح ظافر)مبصرین کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے کی بنیاد پر قومی اسمبلی کے اسپیکر کیلئے سنی اتحاد کونسل میں بطور پارلیمانی جماعت /گروپ تسلیم کرنا دشوار ہوجائے گا ان حالات میں دوسرے چھوٹے گروپ مولانا فضل الرحمٰن کی مہارت اور تجربے سے فائدہ اٹھانے کیلئے انہیں قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کی حیثیت قبول کرنے کیلئے مجبور کرسکتے ہیں۔
ان گروپس کی طرف سے مولانا کو واضح اشارہ دیدیا گیا ہے جس کے بارے میں انہوں نے کوئی حتمی جواب نہیں دیا بتایا جاتا ہے کہ حزب اختلاف کی قیادت کے فیصلے کے مرحلے پر وہ اپنا ذہن آشکار کرینگے۔
قومی اسمبلی کے اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر اور قائدایوان /وزیراعظم کے بعد انتہائی اہم تقرری کیلئے جمعیت العلمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کا نام بطور قائد حزب اختلاف سامنے آگیاہے، اس سلسلے میں وہ اپنے رفقا سے مشاورت کررہے ہیں تاکہ وہ کوئی حتمی فیصلہ زیادہ تاخیر کے بغیر کریں۔
جمعرات کو مولانا فضل الرحمٰن نے صاف لفظوں میں اعلان کردیا ہے کہ وہ قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کا حصہ ہونگےاور اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر، وزیراعظم کے انتخاب میں حصہ نہیں لیں گے۔
سیاسی مبصرین کا ماتھا انکے اس بائیکاٹ سے ٹھنکا ہے جن کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کا قومی اسمبلی سمیت تمام پارلیمانی ایوانوں کیلئے خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کو سنی اتحاد کونسل کو تفویض کرنے کے بارے میں فیصلہ محفوظ ہوچکا ہے،کارروائی میں کونسل کے سربراہ کا خط منظر عام پر آکر ریکارڈ کا حصہ بن جانے کے بعد جس میں انہوں نے انتخابات میں خواتین کیلئے پانچ فیصد امیدوار نامزد کرنے اور مخصوص نشستوں کیلئے اپنے امیدواروں کی فہرست پیش کرنے سے یہ کہہ کر انکار کردیا تھا کہ وہ بطور جماعت انتخابات میں شریک ہی نہیں ہے اس طرح غالب امکان یہی ہے کہ سنی اتحاد کونسل کو ان نشستوں کیلئے زیرغور نہیں لایا جائے گا اس طرح ایوان میں اسے بطور پارلیمانی جماعت / گروپ پہچان حاصل نہیں رہے گی۔