اقوام متحدہ کے دفاتر کے سامنے والی سڑک پر عورتیں اکھٹی ہو رہی تھیں۔ ہمارا گروپ بھی بینر کھولے اپنی ترتیب برابر کر رہا تھا یعنی ہم بھی اپنے پلے کارڈز سمیت مارچ میں شرکت کی تیاریاں کر رہے تھے۔ یہ آٹھ مارچ 2000ء کی دو پہر تھی۔ آج سے پورے 24سال پہلے جب ہمیں حلقہ خواتین جماعت اسلامی نے سینیڑ(ر) کیپٹن ڈاکٹر کو ثر فر دوس کی سر بر اہی میں اقوام متحدہ کے خصوصی کے بارے اجلاس میں بھیجا تھا جسے CSWکہا جاتا ہے، چونکہ 1995ء میں بیجنگ میں خواتین کی تا ر یخی کا نفرنس ہوئی تھی اس لیے اس CSWکو بیجنگ پلس فا ئیو(B+5)کہا جا رہا تھا۔
آٹھ مارچ چونکہ ایک صدی سے عالمی یوم خواتین کے طور پر منا یا جاتا ہے اس لیے ما رچ ان مارچ کے عنوان سے ہم بھی 24سال پہلے اپنے سلو گنز اور نعروں کے ساتھ اس مارچ میں شریک تھے اور واپس آکر حلقہ خواتین کے تحت پورے ملک میں سارا سال عورت کے عنوان سے مختلف پر ا جیکٹس پر کام کرتے ہیں۔ ہمارا سب سے بنیادی نعرہ "Strong Families bulid Strong Societies"ہے جسے ہم اپنی قومی زبان میں ـ’’محفوظ عورت ، مضبوط خاندان، مستحکم معاشرہ ‘‘کے نام سے بھر پور طریقے سے مناتے ہیں۔
ہم نہ فیمینزم کے حق میں ہیں نہ male chauvinismکے حق بلکہ ہم نے اپنے معاشرے کو Familism کا نعرہ دیا ہے کہ وہی عورتیں زندگی کی دوڑ میں ترقی پاتی ہیں جو کہ اپنوں کی محبت اور حفاظت کے حصاروں میں آگے بڑھتی ہیں۔ہم سال کے 365دن عورت کی ہر شعبہ زندگی میں آگے بڑھنے کے خواب بُنتی اور اسکی عملی تعبیر کو جامہ پہناتی ہیں۔
ہمارے ہاں عین جمہوریت کے تقاضوں کے مطابق بنیادی حلقوں سے لے کر اعلی قیادت تک کے انتخابات باقاعدگی سے منعقد ہوتے ہیں ، کچھ ذمہ داریاں ہر دو سال بعد اور کچھ تین سال بعد ضرور انتخابات کے ذریعے تبد یل کی جاتی ہیں۔ ہمارا خواتین حقوق چارٹر جو کہ 1998ء میں فیصل مسجد کے سالانہ عظیم الشان اجتماع میں قاضی حسین احمد ؒ نے منظور کر وایا تھا ، اس کے پانچ نکات کے تحت ہمارے پروگرام ہو تے ہیں،جن میں شامل ہیں۔
1۔ عورت کو بحیثیت عورت معاشرے میں باعزت مقام دلانا، خاندان اور معاشرے میں اُس کے کردار کو مستحکم کرنا، اس کے تحفظ ، اس کی عزت اور اس کے احترام کو تسلیم کروانا۔
2۔ عورت کی ابتدائی اور اعلیٰ تعلیم کے لیے ہر طرح کی کو ششوں کو بروئے کار لانا اور مواقع پیدا کرنا۔
3۔ عورت کی صحت پر ہی صحت مند قوم کے مستقبل کا دارومدار ہے۔ اس کی تولیدی صحت کے ساتھ ساتھ اسے دوسری مہلک بیماریوں سے بچائو کا انتظام بھی بہت ضروری ہے۔ ہمارے ملک کا زیادہ حصہ دیہات پر مشتمل ہے اس لیے اس کے ہر گاؤں، گوٹھ میں بنیادی مر کز صحت کا قیام اشد ضروری ہے۔
4۔ عورت کے لیے مفت اور فوری انصاف کی فراہمی ، ہمارے ملک میں عورت پر ظلم و زیادتی عام ہے ،جب کہ انصاف کے دروازے بند ہیں۔ اس لیے کورٹ کچہری کے ماحول کو عورت کے لیے محفوظ بنانا ازحد اہم ہے۔
5۔ اسلام کے وہ حقو ق جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے عورت کو عطا کیے ہیں ،لیکن معاشرہ کے جاہلی رسوم ورواج کی وجہ سے عورت ان سے محروم ہے، اُن حقوق کو دلانا ہمارے چارٹر کا اہم نکتہ ہے۔مثلاََ وراثت، کفالت، حق تعلیم، رائے کی آزادی وغیرہ۔
ہم وہ پہلی اور واحد جماعت ہیں جو 1998ء سے اس چارٹر کے تحت کام کر رہے ہیں۔ اسی چارٹر کے تحت 2002ء کی اسمبلی میں بطور قانون ساز شریک رہے اور اسمبلی گواہ ہے کہ جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والی عورتیں کارکردگی کے لحاظ سے سرفہرست رہیں۔ہمارے مختلف شعبہ جات کے تحت عورت مختلف میدان کار میں اپنی عملی صلاحیتوں کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ مجھے ذاتی طور پر 24سال ہو گئے ہیں کہ ہم آٹھ مارچ کو بڑے تزک واختشام سے مناتے ہیں اور اسے اپنے نعروں اوراپنی تاریخ اسلام کی روشن قندیلوں کے کرداروں سے سجاتے ہیں۔
امہات المومنین اور صحابیات کے تقش و قدم پر چلنا عورت کی معراج اور شان سمجھتی ہیں۔ ہمارے کام اور ہمارے پراجیکٹس سے ناواقف لوگ ہمارے عورت کے پروگرامز کو کسی کا ردعمل سمجھتے ہیں تو بعض لوگ اسے طنزوتشنیع کی نذرکر دیتے ہیں۔ ہم عورت کے عالمی دن پر تمام طبقات کو یہ دعوت دیتے ہیں کہ اس ملک کی بقاء اور سلامتی کی خاطر سب کو متحد ہونا چاہیے۔
میرے ڈاکٹریٹ کے مقالے بعنوان ’’اسلام کا خاندانی نظام اور عصری تہذیبی تحدیات ‘‘کے دیباچے میں محترم پروفیسر خورشید احمد صاحب نے حوصلہ دلاتے ہوئے لکھا ہے:
"آج اُمت مسلمہ بالعموم اور مسلمان عورت بالخصوص ایک فیصلہ کن دورا ہے پر کھڑے ہیں ۔ ایک طرف مغربی تہذیب و ثقافت کا سیلاب ہے جو وقت کی ٹیکنالوجی کے مؤثر ترین آلات سے آراستہ ہو کر ہمیں اپنے دین و ایمان اور اپنی
تاریخ اور روایت سے کاٹ کر مغربی تہذیب کے سانچے میں ڈھال دینا چاہتا ہے۔ دنیوی ترقی اور ثروت کے طلسم سے ہماری آنکھوں کو خیرہ کرنے میں مصروف ہے، تو دوسری طرف قدامت اور روایت کے کچھ علمبردار بھی اپنے خلوص کے باوجود رسم و رواج کو اقدار اور اصول کا درجہ دے کر وقت کے حقیقی تقاضوں سے مکمل صرفِ نظر کر رہے ہیں اور زمانے کے چیلنج کا مقابلہ کرنے کے بجائے ماضی کے حصار میں محصور ہو جانے میں عافیت دیکھ رہے ہیں۔ یہ دونوں ہی راستے زندگی اور ترقی کے راستے نہیں، اس لیے
دیں ہاتھ سے دے کر اگر آزاد ہو ملت
ہے ایسی تجارت میں مسلماں کا خسارہ
اور اگر ہم اپنی بنیادوں کو کمزور اور مضمحل ہونے دیتے ہیں یا وقت کی ضرورتوں کو نظر انداز کرتے ہیں تو مغرب کی یلغار کا مقابلہ ہمارے لیے ممکن نہیں۔ مغلوبیت اور محکومیت سے بچنے کا راستہ وہی ہے جو نبی اکرمﷺ نے ہمیں سکھایا ہے اور جسے صلحائے امت نے اپنے اپنے دور میں کامیابی سے آزمایا ہے، یعنی اصول اور اقدار کے سلسلے میں مکمل استقامت اور ذرائع اور وسائل کے باب میں ضروری لچک اور وسعت۔ اس لیے کہ
آئین نو سے ڈرنا طرز کہن پر اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
اللہ کا احسان ہے ہم نے دفاعی مورچوں سے نکل کر اقدامی پوزیشن سنبھالی ہے۔ ہم Reactiveنہیں Proactiveرہے ہیں اور اس سال خواتین کا عالمی دن یہ ثابت کر ے گاکہ اجنبی تہذیب کے مقابل اگر کوئی پورے قد سے کھڑا ہے تو وہ ہم ہی ہیں۔ ہمیں ہی جرات اظہار کا سلیقہ حاصل ہے۔ ہمارے پاس دماغوں کو قائل کرنے کی صلاحیت بھی ہے اور محبت سے مائل کرنے کا ہنر بھی۔ہزاروں ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کی منظم قوت بھی ہماری پشت پر موجود ہے اور اس ملک میں جب بھی صدا کاقحط پڑا تو ہم بولیں گے اور بقول مولانا سید ابوالاعلیٰ مؤدودیؒ’’ جب تک ہمارے سر ہماری گردنوں پر موجود ہیں کوئی مائی کا لعل یہاں کوئی دوسرا نظام نہیں لا سکتا۔‘‘
مجھے ڈاکٹر سعاد الفاتح کی ایک نصیحت بھی ہر وقت یاد رہتی ہے کہ، ہم خاندان کے استحکام کے لیے زندگی وار دیں گی، اپنے محبت اور حفاظت کے حصاروں میں جیئں گی اور جینے کا سلیقہ بھی سکھائیں گی، کانتات بن کر فرمابرداری کے تمغے کو اعزاز جانیں گے، مگر ظلم سہنے سے انکار کریں گے۔اگر ہم خود ظلم و جبر کے خلاف نہیں کھڑے ہوں گے تو اپنی نسلوں میں مزاحمت کے بیج کیسے بوئیں گی ؟؟ میرے سامنے آغا جان کے ہاتھ کا لکھا ہوا ایک شعر ڈائری میں درج ہے جو وہ ہر وقت مجھے سناتے رہتے تھے۔
زمشکلات طریقت عنان متاب اے دل
کہ مردراہ نہ اندیشد از نشیب و فراز
اے دل راستے کی مشکلات سے منہ نہ موڑو کہ
بہادر لوگ راستے کے نشیب و فراز سے نہیں ڈرتے