اسلام آباد(فاروق اقدس)پاکستان پیپلز پارٹی نے اس مرتبہ پارلیمانی امور میں غیر معمولی تجربہ رکھنے والے سینئر سینیٹرز کو ٹکٹ سے محروم رکھا ان میں ایوان میں پارٹی موقف کو موثر انداز میں پیش کرنے اور آئین و قانون پر دسترس رکھنے والے رضا ربانی بھی شامل ہیں جو ایوان بالا میں اپوزیشن لیڈر اور چیئرمین دونوں مناصب پر اپنا کردار ادا کر چکے ہیں،خود پیپلزپارٹی کے ذرائع اس فیصلے پر اپنے تحفظات رکھتے ہیں۔
پارلیمانی امور کے حوالے سے بینظیر بھٹو رضا ربانی کی صلاحیتوں کا متعدد بار اعتراف اور ستائش کرتی رہی ہیں گو کہ انہیں 2015میں سینٹ کا چیئرمین بنانے کا فیصلہ پارٹی چیئرمین کی حیثیت سے آصف علی زرداری کا تھا.
لیکن کم لوگوں کے علم میں ہوگا کہ اس بارے میں پرزور دباؤ اور درخواست عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفند یار ولی خان کی تھی ایک نجی نشست میں جب سینٹ کے چیئرمین کیلئے آصف زرداری اور اسفند یار ولی کے درمیان نام پر مشاورت ہوئی تو اسفند یار ولی نے میاں رضا ربانی کا نام تجویز کیا جس پر وہاں موجود ایک عینی شاہد کے مطابق آصف زرداری صاحب نے اسفند یار ولی کو جواب میں کہا کہ خان یہ تو خود بڑا لیڈر ہے میں تو کسی کارکن کو چیئرمین بنانا چاہتا ہوں تاہم بالآخر اسفند یار ولی خان کی بات مان لی گئی اور حاصل بزنجو،محمود خان اچکزئی اور مولانا فضل الرحمان کی مشترکہ کوششوں سے رضا ربانی بلامقابلہ سینٹ کے چیئرمین منتخب ہو گئے۔
کارکردگی کی بنیاد پر جب اگلے دورانیے کیلئے ان کا نام لیا جانے لگا تو ان کے مقابل صادق سنجرانی کا نام آیا جس کے سامنے رضا ربانی کمزور ثابت ہوئے۔
بہرحال ایوان بالا کا ایوان میں نہیں بلکہ لابیز کے مختلف گوشے اور درودیوار بھی پارلیمانی تاریخ میں رضا ربانی کی یاد دلاتے رہیں گے۔ تاہم یہ امکان موجود ہے کہ بلاول بھٹو ان کی صلاحیتوں سے استفادہ کرنے کیلئے پارٹی کے کسی اور پلیٹ فارم کا انتخاب کریں۔