• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ججز کا خط، 300 سے زائد وکلاء کا سپریم کورٹ سے سوموٹو نوٹس لینے کا مطالبہ

اسلام آباد (نیوز ایجنسیاں)اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6ججوں کے خط کے معاملے پر 300 سے زیادہ وکلا جن میں کمیشن کے سربراہ تصدق جیلانی کے صاحبزادے ثاقب جیلانی بھی شامل ہیں نے سپریم کورٹ سے آئین کے آرٹیکل 184 (3)کے تحت انٹیلی جنس آپریٹس کی جانب سے عدالتی امور میں مداخلت کرنے کے الزامات کا سوموٹو نوٹس لینے کا مطالبہ کیا۔وکلاء کا کہنا ہے کہ حکومت کے زیر قیادت کوئی بھی کمیشن ان الزامات کی تحقیقات کو ضروری آزادی اور اختیارات سے محروم کردیگا۔ اتوار کو جاری بیان میں انہوںنے کہاکہ حکومت کے زیر قیادت کوئی بھی کمیشن ان الزامات کی تحقیقات کو ضروری آزادی اور اختیارات سے محروم کردیگا، آئین کا آرٹیکل 184 (3) سپریم کورٹ کے اصل دائرہ اختیار کا تعین کرتا ہے اور اسے پاکستان کے شہریوں کے بنیادی حقوق کے نفاذ کے حوالے سے عوامی اہمیت کے حامل معاملات میں سپریم کورٹ کو دائرہ اختیار استعمال کرنے کے قابل بناتا ہے۔ واضح رہے کہ وزیراعظم نے30مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کے الزامات پر ایک رکنی انکوائری کمیشن بنانے کی منظوری دیدی گئی، جسٹس (ر) تصدق جیلانی کو کمیشن کا سربراہ مقرر کر دیا گیا۔ تاہم ملک بھر سے300سے زائد وکلا بشمول ایمان زینب مزاری حاضر، زینب جنجوعہ، عبدالمعیز جعفری، سلمان اکرم راجا، تیمور ملک اور سابق چیف جسٹس اور کمیشن کے سربراہ تصدق جیلانی کے صاحبزادے ثاقب جیلانی نے ایک عوامی بیان جاری کیا۔ مکمل بیان مزاری حاضر اور زینب جنجوعہ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر بھی شیئر کیا۔ اس میں کہا گیا کہ جن تمام لوگوں نے اس پر دستخط کیے انہوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کے الزامات کی روشنی میں قانون کی حکمرانی، عدلیہ کی آزادی اور انصاف تک رسائی کیلئے ہماری غیر متزلزل عزم اور پوری دلی حمایت کا اظہار کرنے کیلئے بیان جاری کیا۔ ہم اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن، اسلام آباد بار ایسوسی ایشن، سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن، پاکستان بار کونسل، خیبرپختونخوا بار کونسل اور بلوچستان بار کونسل کی طرف سے منظور کی گئی قراردادوں کی اس حد تک توثیق کرتے ہیں کہ وہ عدلیہ کی آزادی کو برقرار رکھنے کا عزم ظاہر کرتی ہیں اور ہائی کورٹ کے 6ججوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے انکے جرات مندانہ اقدام کو سراہتے ہیں اور ایسے اصولوں کو برقرار رکھنے کیلئے مناسب کارروائی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ بیان میں عدالت عظمیٰ سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ آئین کے آرٹیکل184(3)کے تحت اس معاملے کا اپنے دائرہ اختیار میں نوٹس لے کیونکہ یہ مسئلہ عوامی مفادات اور بنیادی حقوق کے نفاذ سے متعلق ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ اس معاملے سے عوام کے سامنے شفاف طریقے سے نمٹا جانا چاہیے کیونکہ یہ عدلیہ کی آزادی پر عوام کا اعتماد ہے جسے بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے اس معاملے کو سیاست زدہ نہ کیا جائے، ہم سپریم کورٹ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ تمام دستیاب ججوں پر مشتمل ایک بینچ تشکیل دے جو اس معاملے کی سماعت کرے اور کارروائی کو عوام کیلئے براہ راست نشر کیا جائے۔ بیان میں کہا گیا کہ اس طرح کی کارروائی کا دائرہ محدود نہیں ہونا چاہیے اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے خط میں لگائے گئے الزامات کے ساتھ ساتھ سابق جسٹس شوکت صدیقی کی طرف سے لگائے گئے الزامات کی بھی انکوائری ہونی چاہیے۔ اس کارروائی میں اگر ثابت ہو تو ایگزیکٹیو اہلکاروں کی طرف سے کی گئی خلاف ورزیوں کی ذمہ داری بھی عائد کرنی چاہیے اور عدلیہ کی آزادی کو محفوظ بنانے اور عدلیہ کے ادارے پر عوام کا اعتماد بحال کرنے کیلئے ذمہ داروں کو جوابدہ بھی ٹھہرایا جانا چاہیے۔
اہم خبریں سے مزید