راولپنڈی (جنگ نیوز)پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے کہا ہے کہ بہاولنگر میں حال ہی میں افسوسناک واقعہ پیش آیا جس کی سکیورٹی اور پولیس اہلکاروں پر مشتمل مشترکہ ٹیم شفاف انکوائری کرے گی جبکہ پنجاب حکومت کے ترجمان کا کہناہے کہ محکمہ داخلہ اور دیگر سکیورٹی اداروں کےحکام ٹیم کا حصہ ہوں گے‘ مفادپرستوں کو فورسز کے خلاف پروپیگنڈے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری بیان کے مطابق بہاولنگر میں پیش آنے والے افسوسناک واقعے کو فوج اور پولیس حکام کی مشترکہ کوششوں سے فوری حل کر لیا گیا تاہم معاملہ حل ہونے کے باوجود مخصوص عناصر نے سوشل میڈیا پر پروپیگنڈا شروع کر دیابعض دھڑوں نے تفریق پیداکرنے کیلئے پروپیگنڈاکیا۔آئی ایس پی آر کے مطابق مذموم مقاصد کیلئے ریاستی اداروں اور سرکاری محکموں کےدرمیان تقسیم کی کوشش کی گئی، قوانین کی خلاف ورزی ،اختیارات کےناجائز استعمال کے ذمہ داران کا تعین کیا جائے گا۔بیان میں کہا گیا ہے کہ حقائق کا پتہ لگانے اور ذمہ داروں کے تعین کے لئے مشترکہ انکوائری کی جائے گی جو سکیورٹی اور پولیس اہلکاروں پر مشتمل ٹیم کرے گی۔ ترجمان پنجاب حکومت کا کہنا ہے کہ حکومت نے بہاولنگر واقعے کی تفتیش کیلئے مشترکہ انکوائری ٹیم بنا دی ہے حقائق اور ذمہ داروں کے تعین کے لئے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بنائی گئی۔واضح رہے کہ اے ایس آئی محمد نعیم نے اہلکاروں کے ہمراہ 8 اپریل کو چک سرکاری میں محمد انور جٹ کے گھر ریڈ کیا‘ مبینہ طور پر اہلخانہ نے مزاحمت کی اور ایک پولیس اہلکار کو کمرے میں بند کردیا اے ایس آئی محمد نعیم نے ایس ایچ او رضوان عباس کو موقع پر بلوالیاجس پر ایس ایچ او اوردیگر اہلکار دیواریں پھلانگ کر محمد انور کے گھر داخل ہوئے ‘بعد ازاں محمد انور جٹ کا بیٹا محمد خلیل اور دیگر اہل محلہ نے جمع ہوکر ایس ایچ او اور پولیس اہلکاروں کو کمرے میں بند کرلیا‘اطلاع پر پولیس کی بھاری نفری موقع پر پہنچی اورایس ایچ ودیگر کو چھڑوالیا‘ پولیس نے محمدانور جٹ، اسکے بیٹے سکیورٹی اہلکار محمد خلیل ، اینٹی نارکوٹکس ملازم محمد ادریس اور دیگر کو گرفتار کرلیااورتھانہ مدرسہ میں محمد انور‘اس کے بیٹے اور گھر کی خواتین سمیت 23 افراد کے خلاف ایف آئی آر بھی درج کرلی‘10اپریل کو سکیورٹی اہلکاروں کی بڑی تعداد پہلے ڈسٹرکٹ ہسپتال پولیس خدمت سینٹر پہنچی جہاں انہوںنے ڈیوٹی پر موجود پولیس اہلکاروں کو تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے پکڑلیا اور مذکورہ ڈاکٹر کو بھی ساتھ لے گئے‘بعد ازاں سکیورٹی اہلکاروں کی بھاری نفری تھانہ سٹی اے ڈویژن پہنچی اورتھانے کا کنٹرول سنبھال کر وہاںموجود پولیس اہلکاروں اور گرفتار ایس ایچ او رضوان عباس‘اے ایس آئی محمد نعیم اور دیگر کومبینہ طور پر شدید تشدد کا نشانہ بنایا‘ ڈی پی او نصیب اللہ خان اور ڈپٹی کمشنر ذوالفقار احمد بھون بھی تھانے پہنچے ‘مذاکرات کے بعد سکیورٹی اہلکار واپس چلے گئے ۔ 2 روز قبل کئی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں جن میں بہاول نگر میں مبینہ طور پر پولیس اہلکاروں کو مارتے ہوئے دکھایا گیا۔ایک ویڈیو میں ایک شخص کو زمین بیٹھے ہوئے دیکھا گیا جس کی ناک خون آلود تھی، دوسرے کلپ میں پولیس والوں کو قطار میں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر رہے ہیں۔کچھ سوشل میڈیا صارفین نے دعویٰ کیا کہ یہ واقعہ پولیس اہلکاروں کی جانب سے ایک کے رشتے دار سے غیر قانونی اسلحہ برآمد کرنے کے باعث شروع ہوا۔ آزادانہ طور پر سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو کلپس کی صداقت کی تصدیق نہیں ہو سکی آئی جی پنجاب پولیس ڈاکٹر عثمان انور نے کہا ہے کہ اسپیشل انیشیٹیو پولیس اسٹیشنز کے ایس او پیز پر عمل درآمد نہ کرنے کے باعث بہاول نگر واقعہ پیش آیا، مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بھی تشکیل دے دی گئی ہے تاکہ انصاف کے تمام تقاضے پورے کیے جاسکیں۔سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’ایکس‘ پر جاری بیان میں ڈاکٹر عثمان انور نے کہا کہ میرا یہ اہم پیغام پوری پنجاب پولیس کے لیے ہے کیونکہ اس کا تعلق پوری فورس کے مورال سے ہے اور یہ مورال اس عزم کی بنیاد ہے جس پر ہم چوروں، ڈاکوؤں اور رہزنوں سے لڑتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ بہاول نگر میں ایک واقعہ پیش آیا جس کو لے کر سوشل میڈیا پر ایسا طوفان بدتمیزی برپا کیا گیا جس سے یہ تاثر پیدا کیا گیا کہ خدانخواستہ پاکستان آرمی اور پنجاب پولیس کے درمیان کوئی ٹکراؤ کی کیفیت پیدا ہو گئی ہو۔ڈاکٹر عثمان انور نے کہا کہ ایک کالعدم تنظیم نے اپنے پیغام میں اس واقعے کو بنیاد بنا کر اداروں کے درمیان ٹکراؤ پیدا کرنے کی کوشش کی، اس طرح کی ٹرولنگ دیگر شرپسند عناصر کی جانب سے بھی کی گئی۔انہوں نے کہا کہ کچھ ویڈیوز کو سیاق و سباق کے بغیر بھی پیش کیا گیا، پرانی ویڈیوز بھی لگائی گئیں، غیرمصدقہ خبروں کا تانتا باندھ دیا گیا جس کی وجہ سے پنجاب پولیس کے جوانوں میں مایوسی پھیلی۔ان کا کہنا تھا کہ جان بوجھ کر کچھ دن کے انتظار کے بعد اس واقعے کے حوالے سے آپ سے بات کرنا اس لیے ضروری ہے کیونکہ یہ بتانا ضروری ہے کہ یہ واقعہ کیسے رونما ہوا اور کیا اس میں پولیس مکمل طور پر ٹھیک تھی یا ہم سے بھی کوئی غلطی ہوئی۔ڈاکٹر عثمان انور نے کہا کہ اسپیشل انیشیٹیو پولیس اسٹیشنز کے ایس او پیز پر عمل درآمد نہ کرنے کے باعث یہ واقعہ پیش آیا، واقعے کے بعد ضلعی پولیس افسر (آر پی او) بہاولپور اور فوج کی مقامی کمان نے علاقے کا دورہ کیا اور دونوں اداروں کا مشترکہ اجلاس منعقد کیا گیا جہاں معاملے کو خوش اسلوبی سے حل کیا گیا۔انہوں نے بتایا کہ اجلاس میں ’پاک فوج زندہ باد‘ اور ’پنجاب پولیس زندہ باد‘ کے نعرے لگائے گئے تاکہ یہ تاثر دور کردیا جائے کہ دونوں اداروں میں کوئی ٹکراؤ ہے، انفرادی غلطی درست کرنے کا طریقہ کار موجود ہے۔ان کا کہنا تھا کہ دونوں ادارے اپنے اپنے محکمہ جاتی ایکشنز کا آغاز کرچکے ہیں، جہاں جو غلط ہوگا، قانون توڑا گیا ہوگا یا ایس او پیز کی خلاف ورزی کی گئی ہوگی اُس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔آئی جی پنجاب نے بتایا کہ اسی سلسلے میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بھی تشکیل دے دی گئی ہے تاکہ انصاف کے تمام تقاضے پورے کیے جاسکیں۔انہوں نے کہا کہ اس واقعے کو اس طرح اٹھایا گیا جس سے پولیس اور فوج کے درمیان فیملی جیسے رشتے کو توڑنے کی کوشش کی گئی، اس تعلق کو کوئی نہیں توڑ سکتا۔انہوں نے واضح کیا کہ تمام ادارے اس ملک کی سالمیت کے لیے مل کر جدوجہد کرتے رہیں گے، ہم آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ پنجاب پولیس اور تمام وردی والے اکٹھے مل کر دہشت گردوں کو نیست و نابود کردیں گے اور پاکستان کو محفوظ بنائیں گے، عوام پر ذمہ داری ہے کہ پروپیگنڈے کا مزید شکار نہ ہوں۔ادھرپاکستان تحریک انصاف نے بہاولنگر میں دو سرکاری محکموں کے ملازمین کے مابین پیش آنے والے واقعہ کی تحقیقات اور ذمہ داروں کا تعین کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ پی ٹی آئی ترجمان نے ایک بیان میں کہا کہ بہاولنگر واقعہ ملک میں مروجہ لاقانونیت اور حکومتی و ریاستی صفوں میں گہرائی تک جنم لینے والے بگاڑ کی بدترین علامت ہے۔ پچھلے دو برس کے دوران ریاستی سطح پر دستور و قانون کو دفن کر کے لاقانونیت کو فروغ دیا گیا اور ایک مخصوص گروہ کو قانون سے ماورا مخلوق کا درجہ دیا گیا ۔ بہاولنگر واقعے پر خفیہ و اعلانیہ پردہ پوشی کی بجائے اس قابل مذمت واقعہ کی تمام پہلووں سے تحقیقات کی جائیں اور ذمہ داروں کا پوری صراحت سے تعین کیا جائے۔ ریاست کو حاکم اور محکوم یا قانون سے ماورا اور قانون کے تابع طبقات میں مزید بانٹنے کی بجائے قانون کو بالادست اور میرٹ کو فیصلہ کن بنایا جائے۔